ہم مختلف چیزوں کی تجارت کرتے ہیں ، اس سلسلے میں چند مسائل پوچھنے ہیں:
1) بعض دفعہ ہم کسی ادارے (خریدار) کوکوئی چیز بیچنے کے لئے اور آرڈر حاصل کرنے کے لئے اس ادارے کے متعلقہ ملازم سے رابطہ کرتے ہیں تو ادارے کا وہ متعلقہ آدمی اس چیز کو پاس کرنے اور اپنے ادارے سے منظور کروانے کے لئے ہم سے صراحتاً یا دلالتا ً(اپنے فعل یا انداز سے ) کمیشن یا کچھ لگی بندھی رقم کا طلبگار ہوتاہے بصورت دیگر ہمارا آرڈر پاس کرنے سے انکار کر دیتا ہے، جبکہ ہماری چیز قیمت اور کوالٹی ہر اعتبار سے ان کی ڈیمانڈ پر پورا اتر رہی ہوتی ہے، ایسی صورت میں اس آدمی سے اپنے آرڈر کو پاس کروانے کے لئے کمیشن (متعین رقم یا گفٹ وغیرہ) دینے کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ یہ صورتیں اس قدر عام ہوگئی ہیں کہ ان کے بغیر عام طور پر بڑا آرڈر حاصل کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔
2) ہم سے خریداری کرنے والے ایک ادارے کے ایک ملازم (جس کا کام اس ادارے کے لئے خریداری کرنا ہی ہے) سے ہم نے ماہانہ تنخواہ کے عوض معاہدہ کیا ہےکہ وہ اپنے ادارے کے لئے ہم سے خریداری کرنے میں معاون ہو گا یعنی اگر قیمت اور کوالٹی کے اعتبار سے ہمارا مال ان کے معیار پر پورا اترتا ہوا تو وہ ہم سےخریدنے کو ترجیح دے گا، نیز اس کے علاوہ دیگر اداروں سے آرڈر دلانے میں بھی ہمارا معاون ہوگا، یہ کام کرنے کے لئے ہماری طرف سے اگر چہ پابندی نہیں ہےکہ وہ اپنے ادارے کے ملازمت کے اوقات میں کام کرے، تاہم بظاہر وہ اپنے ادارے سے طے شدہ ملازمت کے اوقات ہی میں ہمارے لئے دوسرے اداروں سےرابطہ کرے گا، اس کا کیا حکم ہے؟
3) اگر ہم مذکورہ ملازم سے ماہانہ تنخواہ کے عوض یہ معاہدہ کر لیں کہ وہ اپنے ادارے کے لئے خریداری کرنے میں تو ہمارے ساتھ عام سپلائرزجیسامعاملہ کرے، البتہ اس تنخواہ کے عوض دیگر اداروں سے آرڈر دلوانے کا کام کرے (اس کو مارکیٹنگ کہا جا سکتا ہے ) باقی وہ اس کام کو جس وقت میں بھی کرے ہم اس کو پابند نہیں کرتے ، توایسی صورت کا کیا حکم ہے؟
(1)صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص جو اپنی کمپنی سے مال کی خریداری منظور کر وانے پر کمپنی کی طرف سے مقررہے چونکہ وہ باقاعدہ کمپنی کا ملازم ہے ، اور اس کو اس کام پر باقاعدہ کمپنی کی طرف سے تنخواہ ملتی ہے ، اس لئے اس کا مال بیچنے والوں سے مال کی خریداری منظور کروانے پر کسی قسم کا کمیشن لینا شرعاًرشوت کے حکم میں ہے ، اور شرع شریف میں رشوت کالین دین حرام ہے ؛ اس لئے سائل کے لئے مذکورہ شخص کو کسی بھی نام سے اپنے مال کی خریداری منظور کروانے کے لئے رقم دینا شرعاًنا جائز ہے۔(1)
(2) یہ صورت ناجائز ہے۔(2)
(3) صورت مسئولہ میں اگر کمپنی کا مذکورہ ملازم کمپنی کےاوقات کے علاوہ میں سائل کے لئے مذکورہ کام کرے گا یا کمپنی کی اجازت سے کمپنی کے اوقات میں کام کرے گا تو سائل کےلئے اس کو شرعا ًاجرت پر رکھنا جائز ہے ۔(3)
(1)
الدرالمختار مع ردالمحتار(4/46)
الدلال إن باع العين بنفسه بإذن ربھافأجرته على البائع وليس له أخذ شيئ من المشترى لأنه هو العاقد حقيقة.
(2)
الفقہ الاسلامی وادلتہ (4/766)
فالأجير الخاص أو أجير الواحد هو الذى یعمل لشخص واحد مدة معلومة وحكمه أنه لا يجوز له العمل لغيرہ.
(3)
الدرالمختار مع ردالمحتار(6/69)
بخلاف ما لو أجر الحرة بأت استاجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلاإذا بشرط أن لا يخدم غيره.