Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


اجتماعی قربانی کے شرکاء کو جانور کا گوشت خلط ہونے کی صورت میں ان کے جانور کے وزن کےاعتبار سے گوشت دینا


سوال

درج ذیل مسائل میں شرعی رہنمائی مطلوب ہے۔

1. ایک کمرشل ادارہ لوگوں کو اجتماعی قربانی کی سہولت فراہم کرتا ہے ، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ادارہ قربانی کے جانور جو اس کےپاس پہلے سے موجود ہوتے ہیں متعین قیمت پر فروخت کر دیتا ہے، لیکن جانور کی تعیین کی بجائے ایک نمبر دےدیا جاتا ہے کہ مثلا آپ کی گائے نمبر 50 ہو گی۔ اس وقت تک جانور پر کوئی نمبر نہیں ہوتا، جانوروں پر نمبر نگ عید سے ایک دن پہلے لگائی جاتی ہے۔اس جانور پر قبضہ کی عملی شکل نہیں پائی جاتی تاہم خریدار سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو عید سے ایک دن پہلے اس پر قبضہ کر سکتا ہے۔ یہ ادارہ قربانی کی مد میں مزید کوئی فیس نہیں لیتا بلکہ یہ کام تبرعاًکرتا ہے، اور اپنا سارا نفع خرید و فروخت سے پورا کرتا ہے۔رسید پر لکھی ہوئی تحریر کے مطابق ادارہ قربانی کرنے کی وکالت حاصل کر لیتا ہے۔کیا اس طرح جانور فروخت کرنا اور ان کی اجتماعی قربانی کا معاملہ کرنا جائز ہے ؟

2. اجتماعی قربانی کرنے والا یہ ادارہ جس سپلائیر سے جانور خریدتا ہے وہاں جانور کا ریٹ فی کلو گوشت کے حساب سے طے کرلیا جاتاہے، قربانی کے بعد جب حتمی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کل کتنے کلو گوشت نکلا ہے اس کے مطابق قیمت ادا کی جاتی ہے، کیا اس طرح خرید و فروخت کرنا درست ہے ؟ اور کیا قربانی کے لیے خریدے گئے جانور کی قیمت کو جانور کے ذبح ہونے کے بعد وزن ہونے تک مؤخر کر ناشر عاً درست ہے؟

3. قربانی میں جو لوگ حصہ دار ہوتے ہیں وہ بھی جانور کی خریداری گوشت کے حساب سے کرتے ہیں، جانور ذبح ہونے کے بعد اس وزن کو معلوم کر کے لکھ لیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات یہ گوشت دوسرے جانور کے گوشت سے مل جاتا ہے، ایسی صورت میں جووزن لکھا ہو ا تھا وہ وزن پورا کر کے دینا ہوتا ہے، اور اس بات کی اجازت پہلے سے تحریری طور پر احتیاطاًلی ہوئی ہوتی ہے۔

4. اس میں ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض ادارے قربانی کے فی حصے کا تخمینی وزن بتاتے ہیں اور کبھی اس وزن سے کم گوشت نکلے تو وہ اپنی طرف سے گوشت کو پورا کرتے ہیں واضح رہے کہ یہ اضافی گوشت قربانی کے جانور کے گوشت کے علاوہ سے پورا کیاجاتا ہے۔کیا ایسا کرناشر عاً درست ہے ؟

5. بعض ادارے کمرشل بنیادوں پر قربانی کی سہولیات فراہم کرتے ہیں اس میں وہ حصہ داروں سے جانوروں کی قیمت کے علاوہ دیگراخرجات بھی وصول کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنا حق الخدمت بھی وصول کرتے ہیں، دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ادارے کو اپنےحاصل کیے گئے نفع کو بیان کر ناشر عاً ضروری ہے؟

جواب

(1)۔۔۔مذکورہ صورت میں اگر ادارہ کی ملکیت میں پہلے سے جانور موجود ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ خریداری کے وقت جانور کو نمبر کے ذریعہ متعین کرلے، اور خریدار کو قبضہ بھی کروادے ، اس کے بعد ادارہ خریدار سےقربانی کرنے کی وکالت حاصل کرے۔ لہذا جانوروں پر نمبر ڈالے بغیر خریداری کا معاملہ کرنا (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے)بیع فاسد ہے جس سے اجتناب کرنالازم ہے۔ نیز مذکورہ صورت میں خریدار خود یا اس کا نائب اگر جانور ذبح ہونے سے پہلےاس پر عملی طور پر قبضہ نہ کرے تو قربانی بھی ادانہ ہوگی، کیونکہ مذکورہ صورت میں مبیع متعین نہ ہونے کی وجہ سے بیع فاسد ہےاور بیع فاسد میں ملکیت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب مبیع پر قبضہ ہو جائے ، قبضہ نہ ہونے کی صورت میں ملکیت ثابت نہیں ہو گی تو قربانی بھی ادا نہیں ہو گی ۔ (1) (مستفاد از تویب : 77/1537)

(2)۔۔۔ سوال میں جانوروں کی خرید و فروخت کا مذکورہ طریقہ شرعاً جائز نہیں، کیونکہ یہاں عقد کے وقت ثمن کی مقدار مجہول ہے کہ بوقتِ عقد یہ معلوم نہیں کہ ثمن کتنا ہو گا؟ اور ثمن یا اس کی مقدار کی جہالت کی وجہ سے مذکورہ معاملہ فاسد ہے۔

پھر اس طریقہ سے خرید و فروخت کر کے جانور کی قربانی میں ظاہر کے اعتبار سے معاملہ کی صورت گوشت کےخرید و فروخت کی بن رہی ہے جبکہ قربانی گوشت حاصل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کی راہ میں جانور ذبح کرنے کا نام ہےلہٰذا سوال میں مذکورہ طریقہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔ اس لئے جانوروں کی خرید و فروخت یا تو فی عدد جانور کے حساب سے کی جائے یا پورے زندہ جانور کو مجلس عقد ہی میں تول کر اس کی قیمت متعین کرلی جائے۔ (2) (مستفاد از تبویب : 31/2003)

(3)۔۔۔حصہ داروں کا بھی جانور کی خریداری گوشت کے حساب سے کرنا جائز نہیں ہے، جس کی تفصیل نمبر (۲) میں مذکور ہے ۔ اور قربانی کے جانور کے گوشت کو قصداً آپس میں خلط ملط کرنے سے اجتناب کرناضروری ہےکیونکہ ہر جانور کے متعین حصہ دار اپنے حصہ کے مالک ہوتے ہیں، اور مالک کی اجازت کے بغیر اس کا گوشت کسی اور کو دیناجائز نہیں ہے، نیز کمی بیشی کی صورت میں سود لازم آنے کا بھی احتمال ہے۔ لہذا ادارہ پر لازم ہے کہ ہر جانور کا گوشت اس کے متعین حصہ داروں کے درمیان وزن کر کے برابر تقسیم کرے۔(3) (مستفاد از تبویب : 41/2003)

(4)۔۔۔مذکورہ صورت میں اگر پہلے سے طے ہو کہ گوشت اگر مقررہ وزن سے کم نکلے تو ادارہ اپنی طرف سےگوشت کو پورا کرتا ہے تو یہ ناجائز ہے، کیونکہ یہ بظاہر گوشت کی خرید و فروخت شمار ہوگی ، جبکہ قربانی گوشت حاصل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے راستے میں جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔(4)

(5)۔۔۔جانور کی قیمت کے علاوہ دیگر اخراجات اور خدمات کا معاوضہ حصہ داروں سے طے کر کے لینا چاہئے ، لہذاطے کئے بغیر یا خریدار کے علم میں لائے بغیر جانور کی قیمت کے علاوہ حصہ کی رقم سے دیگر اخراجات اور خدمات کا معاوضہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ (5) (مستفاد از تبویب 1743/8)


(1)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام العدلية (177/1)
المادة (۲۰۰) : يلزم أن يكون المبيع معلوما عند المشتري هذا إذا كان المبيع لا بد فيه من التسلم والتسليم فإن لم يكن كذلك فالجهالة فيه لا تمنع صحة البيع وعلى هذا إذا اشترى رجل من آخر متاعه الذي عنده بثمن معلوم وكان مقداره غير معلوم للمتبايعين فالبيع صحيح (مجمع الأخر) (أنقروي) فإن كان المبيع لا بدفيه من التسليم والتسلم وجب أن يكون المشتري عالما به على وجه لايدع سبيلا للنزاع؛ لأن جهالة المبيع تمنع من تسليمه وتسلمه وتؤدي إلى تنازع المتبايعين ويصير العقد بها غير مفيد وكل عقد يؤدي إلى النزاع فاسد فبيع المال المجهول الذي يؤدي إلى النزاع بين المتبايعين فاسد كبيع شاة غير معينة من قطيع غنم.

(2)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري( 294/5)
لا يصح البيع إلا بمعرفة قدر المبيع والثمن ووصف الثمن إذا كان كل منهما غير مشار إليه أما المشار إليه فغير محتاج إليهما؛ لأن التسليم والتسلم واجب بالعقد فهذه الجهالة مفضية إلى المنازعة فيمتنع التسليم والتسلم وكل جهالة هذه صفتها تمنع الجواز أطلق في معرفة القدر فشمل المبيع والثمن فلابد من معرفةالقدر فيهما.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع( 190/5)
( وأما ) التجربة فإن ذلك بالذبح، ووزن المذبوح ليعرف اللحم الذي كان فيها عند العقد بطريق الظهور .لا يمكن؛ لأن الشاة تحتمل الزيادة والنقصان والسمن والهزال ساعة فساعة فلا يعرف به مقدار ثقله حالةالعقد بالتجربة. (وأما) الحزر والظن فإنه لا حزر لمن لا بصارة له في هذا الباب، بل يخطئ لا محالة، ومن له بصارة يغلط أيضا ظاهرا وغالبا، ويظهر تفاوت فاحش، فدل أنه لا طريق لمعرفة اللحم الذي في الشاة الحية.

(3)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (410 / 4)
واللحوم معتبرة بأصولها فإن تجانس الأصلان تجانس اللحمان فتراعى فيه المماثلة، ولا يجوز إلا متساويا، وإن اختلف الأصلان اختلف اللحمان فيجوز بيع أحدهما بالآخر متساويا، ومتفاضلا بعد أن يكون يدا بيد، ولا يجوز نسيئة لوجود أحد، وصفي علة ربا الفضل، وهو الوزن..... وكذالحوم البقر،والجواميس كلها جنس واحد، ولحوم الغنم من الضأن والنعجة والمعز، والتيس جنس واحد اعتبارابالأصول.

مجلة الأحكام العدلية ( 27)
المادة (٩٦) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه.

(4)
المبسوط للسرخسي( 12/8)
اعلم بأن القرب المالية نوعان نوع بطريق التمليك كالصدقات ونوع بطريق الإتلاف كالعنق ويجتمع في الأضحية معنيان فإنه تقرب بإراقة الدم وهو إتلاف ثم بالتصدق باللحم وهو تمليك.

(5)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام( 98/ 1)
لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي هذه القاعدة مأخوذة من المجامع وقد ورد في الحديث الشريف لا يحل لأحد أن يأخذ مناع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده.......قد قيدت هذه المادة بقوله (بلا سبب شرعي) لأنه بالأسباب الشرعية كالبيع والإجارة، والهبة، والكفالة، والحوالة بحق أخذ مال الغير.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2604/1 المصباح : FDX:031
11 0