1. جامعہ دارالعلوم کراچی سے جاری شدہ فتویٰ کے مطابق گریجویٹی کی زکوۃ کمپنی نے ادا کرنی ہوتی ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی گریجویٹی کی رقم سے قرض لے لے اور پھر زکوۃ کی تاریخ آجائےتو اگر وہ ر قم اس کے پاس موجود ہو تو کیا یہ رقم قابل زکوۃ اثاثہ جات میں شمار کی جائے گی یا نہیں؟ اور اسی طرح اگر یہ رقم زکوۃ کی تاریخ آنے تک خرچ ہو چکی ہو اور اب اس نے قسطوں کی شکل میں کمپنی کو واپس کرنی ہو تو کیا دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ یہ بھی کل اخرا جات سے منہا کی جائے گی یا نہیں ؟ (واضح رہے کہ گر یجو یٹی کی رقم جو کہ کمپنی کی طرف سے ملازم کیلئے گفٹ ہوتی ہے وہ رقم ملازم قرض لے سکتا ہے اور بعد ازاں اسے وہ قرض کمپنی کو واپس کرنا بھی لازم ہوتا ہے ، اس رقم کا استحقاق اسے ملازمت کے اختتام پر حاصل ہوتا ہے(
2. اگر کسی نے ایڈوانس سیلری لی ہوئی ہے جو آئندہ اس کی تنخواہ سے تین قسطوں میں کاٹی جائے گی، مثلاً ساٹھ ہزار روپےتنخواہ ہے تو ہر ماہ مثلاً بیس ہزار کی کٹوتی ہو گی اور چالیس ہزار ملیں گے۔ اب اس دوران اس کی زکوۃ کی تاریخ آجائے تو کیایہ رقم قرض شمار کر کے قابل زکوٰۃ اثاثوں سے منہا کی جائے گی یا نہیں ؟ اس میں کیا تفصیل ہوگی ؟
(1)۔۔۔ملازم اگر کمپنی سے گریجویٹی کی رقم قرض لے اور زکوٰۃ کا سال پورا ہو جائے تو ملازم اس قرض کو قابل زکوۃاموال سے منہا کرے گا۔ البتہ کمپنی اس رقم کواپنے قابل وصول قرضوں میں شمار کرے گی اور اس کی زکوۃ کمپنی کےذمہ ہوگی۔ تاہم اس کی ادائیگی فی الحال واجب نہیں، بلکہ جب قرض کی یہ ر قم یکمشت وصول ہو جائے یا تھوڑی تھوڑی وصول ہونے کی صورت میں مقدار نصاب کا پانچواں حصہ یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا بیس فیصد جب وصول ہو جائے اُس وقت ادا ئیگی واجب ہوگی، لیکن اگرمذ کورہ رقم وصول ہونے سے پہلے اپنے اموال زکوۃ کے ساتھ ساتھ اس رقم کی بھی زکوۃ ادا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، بلکہ اسی میں سہولت ہے، ورنہ اگر قرض دوسرے سال کےگزرنے کے بعد یا مزید تاخیر سے وصول ہوا تو اس وقت پچھلے تمام سالوں کا حساب کر کے زکوٰۃ ادا کرنی پڑے گی۔(1)
(2)۔۔۔ملازم اگر پیشگی ( ایڈوانس) تنخواہ لے لے تو ر قم اس کی ملکیت میں آجاتی ہے اور فقہی لحاظ سے یہ"ا جرت معجلہ " ہے، لہذا کمپنی پر اس رقم کی زکوۃ نہیں ہوگی۔ البتہ ملازم کی زکوٰۃ کا سال ہونے پر اس میں سے استعمال کے بعد جتنی رقم بچی ہوئی ہو وہ ا گر نصاب کے بقدر ہو یا دیگر اموال زکوۃ کے ساتھ مل کر نصاب کے برابر ہو جائے تو اس پرز کوٰ ۃفرض ہوگی۔(2)
(1)
الدر المختار - (2 / 305)
( و ) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة قوي ومتوسط وضعيف ف (تجب )زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول لكن لا فورا بل ( عند قبض أربعين درهما من الدين ) القوي كفرض ( وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم.
(2)
الفتاوى الهندية - (4/413)
ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي.