ہماری میڈیسن کمپنی ہے جس کے پانچ شرکاء ہیں ہم بیلنس شیٹ کے ذریعے اپنی زکوٰۃ کا حساب بناتے ہیں۔ اس بیلنس شیٹ میں ور کنگ ایڈوانس کے نام سے کچھ اموال کو قابل وصول اموال (Receivables) شمار کیا جاتا ہے ، اس میں مثلاً: ایڈوانس سیلری وغیرہ ہوتی ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی یہ ایڈوانس مالکان میں سے کوئی وصول کر لیتا ہے اس کو بھی بیلنس شیٹ میں (Advance to Directors)کے عنوان سے شامل کر لیا جاتا ہے البتہ مالکان جو ر قم وصول کرتے ہیں عام طور سے وہ کمپنی کو واپس نہیں کرتے ، اب اس میں چند باتوں کی وضاحت مطلوب ہے:
1. پانچ شرکاء میں سے دو شریک ہی زیادہ تر رقوم کمپنی سے نکالتے ہیں ایسی صورت میں بعض شرکاء کے رقم نکال لینے کےبعد کمپنی کی زکوۃ کے حساب کے وقت وہ رقم قابل وصول اموال اور قابل زکوۃ شمار ہو گی یا نہیں جب کہ عام عادت یہی ہے کہ مالکان واپس نہیں کرتے۔
2. اسی طرح کمپنی کبھی اپنی ذیلی کمپنی (Sister Concern) کو قرض دیتی ہے، کیا ذیلی کمپنی کو دیے گئے قرض کو قابل وصول قرضوں میں شمار کیا جائے گا؟ جب کہ دونوں کمپنیوں کے مالکان ایک ہی ہوں۔
پہلے یہ بات ذہن میں رہے کہ زکوٰۃ کمپنی کے افراد و اَشخاص کے قابلِ زکوٰۃ اموال پر واجب ہوتی ہے نہ کہ کمپنی پر ، اس لئے جس دن زکوٰۃ کا سال مکمل ہورہا ہے اس دن کمپنی میں قابلِ زکوۃ اثاثہ جات کو دیکھ کر ہر ایک شریک پر اپنی ملکیت کے تناسب سےزکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔ ہاں اگر شرکاء نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے حصے کی زکوٰۃ ادا کرنے کی اجازت دی ہو تو ایسی صورت میں جس کو اجازت دی ہے وہ زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے۔ اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ :
(1)۔۔۔ جتنی بھی رقوم بطور قرض قابل ِوصول ہوں وہ سب قابلِ زکوٰۃ شمار ہونگی اور ان پر زکواۃ واجب ہے، کمپنی کے مالکان نےخود اپنی کمپنی سے جو رقم ادھار لی ہے اور اسے وہ واپس نہیں کرتے تو وہ اپنی زکوۃ کا حساب کرتےوقت اگر وہ رقم موجود ہے تو وہ اپنے حصے کی بقدر رقم کی زکوٰۃ ادا کرینگے، دوسروں کے حصے کی زکوٰۃ ادا کرنا ان پر لازم نہیں، البتہ ایڈوانس سیلری کی رقم اگر پیشگی اجرت کاحصہ ہو اور واپس کرنا ضروری نہ ہو تو یہ کمپنی کا قرضہ شمار نہیں ہوگا، البتہ جس ڈائریکٹر نے یہ اجرت لی ہے اگر اس میں سے کچھ زکوۃ کی تاریخ تک بچا ہوا ہو تو وہ اس کی زکوۃ ادا کریگا۔
(2)۔۔۔اگر بڑی کمپنی اپنی ذیلی کمپنی کو قرض دیتی ہے تو چونکہ وہ بڑی کمپنی کی قابل وصول رقم ہے اس لئے اس پر زکوٰۃ واجب ہے، اگر چہ کمپنیوں کے مالکان ایک ہوں، البتہ اس قرض کو ذیلی کمپنی کے قابلِ زکوۃ اَموال میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
الفتاوى الهندية : (413/4)
ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي.
الدر المختار (305/2)
و اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة قوى ومتوسط وضعيف فتجب زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول لكن لا فورا بل عند قبض أربعين درهما من الدين القوى كقرض وبدل مال تجارة فكلما قبض أربعین در همایلز مه درهم .واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب