Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


گھر کے کرائے کو زکوٰۃ کے حساب سے کب منہا کیاجائےگا؟


سوال

اجارہ کے معاملے میں کہا جاتا ہے کہ ایک مہینے کا کرایہ منہا کیا جا سکتا ہے۔ اس میں یہ پوچھنا تھا کہ اگر کسی کی زکوۃ کی اسلامی تاریخ انگریزی تاریخ کے مطابق بالکل ابتدائے ماہ میں آجائے مثلاً تین یا چار تاریخ کو اس کی زکوۃ کی تاریخ آجائےتوایسی صورت میں بھی ایک مہینے کا کرایہ منہا کیا جا سکتا ہے یا صرف مہینہ پورا ہونے پر منہا کیا جائے گا؟ یعنی کیا صرف اس صورت میں ایک ماہ کا کرایہ منہا کیا جاتا ہے جو مہینہ گزر چکا ہو اور اس کا کرایہ واجب الاداء ہو گیا ہو یا مہینہ شروع ہونے کے بعد ختم ہونے سے پہلے بھی زکوۃ کی تاریخ آنے کی صورت میں رواں مہینہ کا کرایہ منہا کر سکتے ہیں ؟

جواب

اگر کسی شخص کی زکوۃ کی تاریخ انگریزی مہینہ کے شروع یا در میان میں آجائے تو کرایہ کی رقم قابلِ زکوۃاموال سے منہا کرنے میں یہ تفصیل ہے کہ :

اگر کرایہ مہینہ کے شروع میں پیشگی دینا طے ہو تو رواں مہینہ کا کرایہ قابلِ زکوۃ اموال سے منہا کیا جاسکتاہے، کیونکہ پیشگی کی شرط کی وجہ سے مہینہ کے شروع ہی میں کرایہ واجب الاداء ہو جاتا ہے۔البتہ اگر کرایہ پورا مہینہ فائدہ اٹھانے کے بعد مہینہ کے آخر میں دیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں رواں مہینہ کے جتنے دن گزر چکے ہوں صرف اتنے دنوں کے بقدر کرایہ منہا کیا جاسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

الاختيار لتعليل المختار (2/55)
فصل (والأجرة تستحق باستيفاء المعقود عليه، أو باشتراط التعجيل أو بتعجيلها) لأن الأجرة لا تجب بنفس العقد لقوله عليه الصلاة والسلام: «أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه» ولو وجبت بنفس العقد لما جاز تأخيره إلا برضاه، والنص يقتضي الوجوب بعد الفراغ، لأن العرق إنما يوجد بالعمل، ولأن المنفعة لا يمكن استيفاؤها لذي العقد لأنها تحدث شيئا فشيئا، وهي عقد معاوضة فتقتضي المساواة فلا تجب الأجرة بنفس العقد، فإذا استوفى المعقود عليه استحق الأجرة عملا بالمساواة، وإذا اشترط التعجيل أو عجلها فقد رضي بإسقاط حقه في التأجيل فيسقط.

الدر المختار (6/10)
(و) اعلم أن (الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة)المنجزة
......(أو الاستيفاء) للمنفعة (أو تمكنه منه )إلا في ثلاث مذكورة في الأشباه .

حاشية ابن عابدين - (6/10)
(قوله لا يلزم بالعقد) أي لا يملك به كما عبر في الكنز؛ لأن العقد وقع على المنفعة وهي تحدث شيئا فشيئا وشأن البدل أن يكون مقابلا للمبدل، وحيث لا يمكن استيفاؤها حالا لا يلزم بدلها حالا إلا إذا شرطه ولو حكما بأن عجله؛ لأنه صار ملتزما له بنفسه حينئذ وأبطل المساواة التي اقتضاها العقد فصح (قوله بل بتعجيله) في العتابية: إذا عجل الأجرة لا يملك الاسترداد، ولو كانت عينا فأعارها أو أودعها رب الدار كالتعجيل وفي المحيط: لو باعه بالأجرة عينا وقبض جاز لتضمنه تعجيل الأجرة طوري (قوله أو شرطه) فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين المؤجرة عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط، لكن ليس له بيعها قبل قبضها بحر.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2009/18 المصباح : SF:036
21 2