Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


مخصوص آرڈر پر تیار کئے گئے سامان کی زکوۃ


سوال

ہماری میڈیسن کمپنی ہے ، جس میں ہم اپنے مخصوص برانڈز اور نام کے ساتھ ادویات تیار کرنے کے ساتھ بعض دیگر کمپنیوں کو بھی آرڈر پر ادویات بنا کر دیتے ہیں۔ یہ معاملہ جو کہ کنٹریکٹ مینو فیکچرنگ کہلاتا ہے، پہلے سے طے شدہ شرائط کے مطابق درج ذیل صورتوں سے انجام پاتا ہے:

• اکثر معاملہ کسٹمر کو تیار پروڈکٹ مخصوص طے شدہ قیمت کے عوض فراہم کرنے کا ہوتا ہے ، اور پروڈکٹ سے متعلقہ تمام خام مال ، پیکنگ مٹیریل وغیرہ کا انتظام ہمارے ( مینو فیکچرر) کے ذمہ ہوتا ہے۔

• بعض دفعہ تمام در کار خام مال یا بعض اجزاء مثلاً پیکینگ مٹیریل وغیرہ فراہم کرنا آرڈر دینے والے کے ذمہ ہوتا ہےجبکہ مینوفیکچر رادار ہ بنانے کے
طے شدہ سروس چارجز وصول کرتا ہے۔

بہر دو صورت پیمنٹ کا ایک مخصوص حصہ مثلاً 80 فیصد ایڈوانس میں وصول کیا جاتا ہے جبکہ بقیہ پیمنٹ مال کی فراہمی پر موقوف ہوتی ہے۔ جب ہماری زکوٰۃ کی تاریخ آتی ہے تو ہم کسٹمر سے ایڈوانس ملی ہوئی رقم کو اپنے اثاثوں سے منہا کر کے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، کیونکہ در حقیقت یہ رقم ہمارے اکاؤنٹس کے اعتبار سے بھی ہماری تب کہلاتی ہے جبکہ اس کے عوض طے شدہ سروس/ پروڈکٹ ہم نے فراہم کر دی ہو ور نہ کسی بھی وقت معاہدہ کینسل ہونے کی صورت میں یہ رقم ہمارے پاس امانت ہوتی ہے جو ہم نے واپس کرنا ہوتی ہے۔

جواب طلب اُمور یہ ہیں :

1. کیا اس رقم کو ز کوٰۃ کے حساب سے منہا کرنا درست ہے ؟

2. بعض دفعہ مال تیاری کا آرڈر لے لیا جاتا ہے ، لیکن کسٹمرز سے ایڈوانس رقم بالکل نہیں ملتی ، یا کچھ رقم ایڈوانس ہوتی ہے باقی مال کی فراہمی کے بعد ملتی ہے، تو وہ رقم جو ابھی تک کسٹمر سے وصول نہیں ہوئی ، جبکہ ابھی تک پروڈکٹ بھی کسٹمر کو نہیں دی گئی،ایسی رقم کی زکوٰۃ سے متعلق کیا حکم ہوگا؟
3. وہ رقم جو ابھی تک کسٹمر سے وصول نہیں ہوئی اور پروڈکٹ بھی فراہم کی جاچکی ہو تو اس قابل وصول رقم کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہو گا؟

4. اگر کسٹمر کے لئے ان کے مخصوص نام اور برانڈ کے ساتھ پروڈکٹ تیار کی جاچکی ہو ، ابھی کسٹمر نے وصول نہیں کی تھی اور زکوٰۃکی تاریخ آگئی تو ایسی صورت میں اس تیار شدہ پروڈکٹ کی زکوٰۃ کس کے ذمہ ہوگی ؟

5. ڈسٹری بیوٹرز بعض دفعہ کسی مخصوص مال کا آرڈر دیتے ہیں، جو اگر چہ ہماری عام پروڈکٹ ہوتی ہے لیکن اس کی مخصوص مقدارڈسٹری بیوٹر کی ڈیمانڈ پر ہی تیار کی جاتی ہے اس آرڈر پر جور قم ایڈوانس میں لی جاتی ہے، اس رقم کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہوگا؟

6. اگر گذشتہ سالوں میں مذکورہ صورتوں میں بنائی گئی رقوم کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی تو کیا حکم ہوگا؟

جواب

سوالات کے جواب سے پہلے یہ بات واضح رہے کہ سوال میں ذکر کردہ معاملہ کی دو صورتوں میں سے پہلی صورت جس میں خام مال اور پیکینگ مٹیریل وغیرہ سب آپ کے ذمہ ہوتا ہے، یہ شرعی لحاظ سے "استصناع " کا معاملہ ہے، جبکہ دوسری صورت جس میں پورا یا اکثر مٹیریل خریدار کا ہوتا ہے اور آپ صرف خدمات فراہم کر کے سروس چار جز لیتے ہیں، یہ صورت شرعی لحاظ سے "اجارہ "ہے۔(1)

اس تمہید کے بعد سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

(1)۔۔۔مذکورہ ایڈوانس لی گئی رقم کو زکوٰۃ کے حساب سے منہا کرنا درست نہیں، بلکہ اس رقم کی زکوٰۃ بھی آپ کےذمہ لازم ہے، کیونکہ یہ ایڈوانس رقم فقہی لحاظ سے پہلی صورت میں " استصناع کا ثمن “ ہے، اور دوسری صورت میں"اُجرتِ معجلہ “ ہے، اور شرعی لحاظ سے یہ دونوں آپ کی ملکیت ہوتے ہیں، لہذا اس کی زکوٰۃ بھی آپ کے ذمہ لازم ہے۔(2)

(2)۔۔۔جور قم وصول نہیں ہوئی اس کی زکوٰۃ آپ کے ذمہ لازم نہیں، کیونکہ وہ آپ کی ملکیت نہیں ہے۔(3)

(3)۔۔۔مذکوره قابلِ وصول رقم فقہی لحاظ سے دین ِقوی ہے اور اس کی زکوٰۃ بھی آپ کے ذمہ لازم ہے، البتہ اگریہ رقم زکوٰۃ نکالنے کی سالانہ تاریخ تک وصول نہ ہو تو اس کی زکوٰۃ کی ادائیگی فی الحال واجب نہیں، بلکہ مقدار ِنصاب کاپانچواں حصہ یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کا بیسں فیصد جب وصول ہو جائے اس وقت ادائیگی واجب ہوگی،لیکن اگر آپ رقم وصول ہونے سے پہلے ہی اپنے اَموالِ زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اس قابلِ وصول رقم کی بھی زکوٰۃ ادا کرناچاہیں تو کر سکتے ہیں، بلکہ اسی میں سہولت ہے، ورنہ اگر مَذکورہ قابل ِوصول رقم دوسرے سال کے گزرنے کے بعد یامزید تاخیر سے وصول ہوئی تو اس وقت پچھلے تمام سالوں کا حساب کر کے زکوۃ ادا کرنی پڑے گی۔(3)

(4)۔۔۔ا گر یہ معاملہ اجارہ " کا ہو تو اس پروڈکٹ کی زکوٰۃ آپ کے ذمہ لازم نہیں ہو گی۔ لیکن اگر استصناع " کامعاملہ ہو تومذ کورہ تیار شد ہ پروڈکٹ کی زکوٰۃ آپ کے ذمہ ہو گی، کسٹمر کے ذمہ نہیں، کیونکہ استصناع میں قبضہ کے بعدملکیت آتی ہے، لہٰذامذ کورہ پروڈکٹ کسٹمر کے قبضہ سے پہلے اس کی ملکیت نہیں ہوئی، بلکہ آپ ہی کی ملکیت ہے۔البتہ اگر وقتِ مقررہ پر پروڈکٹ تیار ہونے کے بعد آپ کی طرف سے گاہک کو مال اُٹھانے کا کہہ دیا جائے اور گاہک کیلئے مذکورہ مال وصول کرنے میں آپ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ہو اور وہ بلاوجہ مال وصول کرنے میں تاخیر کرے توایسی صورت میں یہ مال آپ کے پاس ا مانت ہو گا اور اس مال کی زکوٰۃ آپ کے ذمہ نہیں ہو گی۔(4)

(5)۔۔۔یہ بھی استصناع کا شمن ہے جو آپ کی ملکیت ہے، لہذا اس میں سے جتنی رقم باقی ہوا سے آپ کے قابلِ زکوٰۃ اَموال میں شامل کر کے اس کی زکوٰۃ بھی آپ کے ذمہ لازم ہے۔(5)

(6)۔۔۔جن صورتوں میں زکوۃ آپ کے ذمہ لازم ہوتی ہے اُن میں اگر پچھلے سالوں کی زکوۃ ادا نہیں کی گئی تو حساب لگا کر گذشتہ تمام سالوں کی زکوۃ ادا کرنالازم ہے۔والله اعلم بالصواب

(1)
الفتاوى الهندية - (517/4)
والاستصناع أن تكون العين والعمل من الصانع فأما إذا كانت العين من المستصنع لا من الصانع فإنه يكون إجارة ولا يكون استصناعا كذا في المحيط.

(2)
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 165) .
وأما زكاة الأجرة المعجلة عن سنين في الإجارة الطويلة التي يفعلها بعض الناس عقوداويشترطون الخيار ثلاثة أيام في رأس كل شهر فتجب على الآجر لأنه ملكها بالقبض وعند الانفساخ لا يجب عليه رد عين المقبوض بل قدره فكان كدين لحقه بعد الحول.

فقه البيوع (605/1)
أحكام ثمن الاستصناع: ٣- الثمن المدفوع عند إبرام العقد مملوك للصانع يجوز له الانتفاع والاسترباح به، وتجب عليه الزكاة فيه، ولكنه مضمون عليه بمعني أنه إذا انفسخ العقدلسبب من الأسباب يجب عليه ردّ الثمن علي المستصنع، ويكون ربحه للصانع بحكم الضمان، تخريجا للثمن المقدم في الاستصناع علي الأجرة المقدمة أو ما اشترط تعجيله في الإجارة.

(3)
الدر المختار (2 / 305)
(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة قوي ومتوسط وضعيف ف (تجب ) زكاتها إذاتم نصابا وحال الحول لكن لا فورا بل ( عند قبض أربعين درهما من الدين ) القوي كقرض ( وبدل مال تجارة ) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم.

(4)
فقه البيوع (601/1)
۲۷۸ : أحكام المصنوع ۳: والمصنوع قبل التسليم ملك للصانع، ولهذا ذكر الفقهاء أنه يجوز له أن يبيعه من غيره .... ولكن ينبغي أن يقيد جواز البيع من الغير بشرط أن يتمكن الصانع من تسليم مثله إلى المستصنع في موعده، فإن لم يتمكن لايجوز له بيعه إلي غير المستصنع، لا لأنه ليس ملكا له، بل لأنه يؤدي إلي عدم التسليم إلي المستصنع في موعده المعقود عليه، وقد مرّ ترجيح أن الاستصناع عقد لازم، ويجوز ضرب الأجل فيه للاستعجال.إن المصنوع قبل التسليم مضمون عليه، فيتحمّل الصانع جميع تبعات الملك من صيانته وحفظه، فإن هلك قبل التسليم هلك من مال الصانع ... تبرأ ذمة الصانع بتسليم المصنوع إلي المستصنع أو تمكينه منه بالتخلية أو تسليمه إلي من يُحدده المستصنع وكيلا عنه في القبض، وبهذا ينتقل ضمان المصنوع من الصانع إلي المستصنع .إذا امتنع المستصنع عن قبض المصنوع بدون حق بعد التخلية من الصانع وتمكينه من القبض، يكون المصنوع أمانة في يد الصانع، لايضمنه إلا بالتعدي أو التقصير، ويتحمل المستصنع تكلفة حفظه.

(5)
الفتاوى الهندية - (4/ 517)
والاستصناع بيع هو الأصح والمستصنع بالخيار إذا رآه ولا خيار للصانع هكذا قال أبويوسف - رحمه الله تعالى - أولا وعليه الفتوى. كذا في الخلاصة . ثم إذا رضيه المستصنع ليس له الرد بعد ذلك وللصانع أن يبيعه قبل أن يرضاه المستصنع . كذا في التهذيب.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2387/13 المصباح : MDX:034
10 0