Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


کمپنی تیارشدہ پروڈکٹ کی زکوۃ کے حساب میں کس مارکیٹ کی قیمت کا اعتبار کرے گی؟


سوال

ہمارا ایک مینو فیکچرنگ ادارہ ہے جس میں مختلف اجزائے ترکیبی (جڑی بوٹیاں) ملا کر پروڈکٹ تیار کی جاتی ہے اور پھران پروڈکٹس کو مارکیٹ میں عام گاہک تک پہنچا کر نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس بہت سارا مال ایسا ہوتا ہے جو تیار رکھا ہواہوتا ہے اور اس دوران زکوۃ کی تاریخ آجاتی ہے تو اس حوالے سے رہنمائی درکار ہے کہ ہم اس تیار شدہ مال کی زکوۃ کس قیمت کے اعتبار سے ادا کریں۔ اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ :

تیار شدہ مال مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے اور مارکیٹیں کئی قسم کی ہوتی ہیں جیسے :

• ڈسٹری بیوٹر مارکیٹ
• ہول سیلر مارکیٹ
• ریٹیلر مارکیٹ

اور ہر ایک کی قیمتیں ایک دوسری مارکیٹ سے کچھ نہ کچھ اوپر نیچے ہوتی ہیں۔

1. اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنے پاس موجود تیار شدہ مال کی زکوۃ کا حساب لگانے کیلئے کو نسی مارکیٹ کا اعتبار کریں؟جبکہ ہم اپنا مال (ڈسٹری بیوٹر مارکیٹ میں) ڈسٹری بیوٹرز کو فروخت کرتے ہیں جو کہ ایک مخصوص فیصدی ڈسکاؤنٹ کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے اور پھر ڈسٹری بیوٹر آگے اس کو ہول سیلر اور ریٹیلر تک پہنچاتا ہے، چنانچہ جو چیز ریٹیلر کو سو روپے کی دی جاتی ہے ، وہ ہم ڈسٹری بیوٹر کو 25 فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ 75 روپے کی فروخت کرتے ہیں، اور پھر ڈسٹری بیوٹر اس کو نفع رکھنے کےبعد آگے فروخت کرتا ہے جو بالآخر عام گاہک تک 100 روپے کی پہنچتی ہے۔جواب طلب امر یہ ہے کہ ہم ایسے مال کی زکوۃ 100 روپے کے حساب سے ادا کریں گے یا اپنی قیمتِ فروخت یعنی 75 روپے کےاعتبار سے؟

2. بعض اوقات ڈسٹری بیوٹرز کو 25 فیصد ڈسکاونٹ کے علاوہ مختلف عنوانات سے اضافی ڈسکاؤنٹ بھی دیا جاتاہے البتہ رسید (invoice) میں قیمتِ فروخت کے عنوان میں صرف 25 فیصد ڈسکاؤنٹ کا ذکر ہوتا ہے جبکہ اس پر 5 فیصد مزیدڈسکاؤنٹ ڈسٹری بیوٹر کے گاڑیاں وغیرہ چلانے کے خرچے یا مختلف اخراجات کے نام سے دیا جاتا ہے (اور اس کا ذکر قیمت کی مدمیں نہیں ہوتا)، اس طرح اگر چہ کل ڈسکاؤنٹ 30 فیصد بن جاتا ہے، لیکن پانچ فیصد ڈسکاؤنٹ دراصل قیمت کا حصہ نہیں ہو تا بلکہ ڈسٹری بیوٹر کو مال تقسیم کرنے کے سلسلے میں آنے والے اخراجات کی مد میں پیشگی دیدیا جاتا ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ ہم تیارمال کی زکوۃ کا حساب لگانے کیلئے 75 روپے کو بنیاد بنائیں گے یا مزید ڈسکاؤنٹ کے بعد والی قیمت یعنی 70 روپے کا اعتبار کریں گے ؟

3. ایسا مال جو ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہے وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ اس کی قیمت ِفروحت کا اندازہ نہیں ہو سکتا مثال کے طور پر اگر ہم نے مختلف قیمتی اجزاء کو مشینوں سے گزار کر اس سے ایک محلول تیار کر لیا تو وہ محلول اس حالت میں تو مارکیٹ میں کہیں بھی نہیں ملے گا۔ اس لئے اس کی قیمتِ فروخت مارکیٹ سے معلوم نہیں ہو سکے گی اور ہمیں یہ بھی صحیح اندازہ نہیں ہو گا کہ یہ چیز کب تک تیار ہو کر مارکیٹ میں آجائے گی اور اس پر مزید کتنے اخراجات وغیرہ آئیں گے۔اب سوال یہ ہے کہ ایسے مال کی زکوۃ کس حساب سے ادا کی جائے ؟ بعض حضرات نے اس کا فارمولا " قیمتِ خرید مع زائد خرچ"بتلایا ہے ،، زائد خرچ سے مراد وہ اخراجات ہیں جو اب تک اس چیز کی تیاری میں صرف ہو چکے ، آپ حضرات سےاس بارے میں رہنمائی درکارہے۔

جواب

(1)۔۔۔صورتِ مسئولہ میں جس قیمت (یعنی ڈسٹری بیوٹر مارکیٹ والے ریٹ) پر آپ لوگ اپنا سامان فروخت کرتے ہیں، اس کے اعتبار سے آپ پر زکوۃ کی ادائیگی لازم ہے، ہول سیل یاریٹیلر ریٹ کے اعتبار سے زکوۃ اداکر نالازم نہیں ہے۔(1)
) 2) ۔۔۔ اگر یہ پانچ فیصد کا مزید ڈسکاؤنٹ قیمت کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ سامان پچیس فیصد ڈسکاؤنٹ پر ہی فروخت کیا جاتا ہے اور پانچ فیصد مزید ڈسکاؤنٹ ڈسٹری بیوٹر کو مال تقسیم کرنے پر آنے والے اخراجات تبر عاًدیا جاتاہے تو پھر زکوۃ ادا کرتے وقت اس ڈسکاؤنٹ کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ ڈسٹری بیوٹر کو جس قیمت پر مال فروخت کیا جاتاہے ، اس قیمت کے حساب سے زکوۃ نکالی جائے گی، کیونکہ وہی سامان کی قیمتِ فروخت ہے۔ (1)

(1)
المعايير الشرعية ، المعيار الخامس والثلاثون ، معيار الزكاة (477)
٢/٢/٥ يتم تقويم عروض التجارة بالقيمة السوقية للبيع في مكان وجودها حسب طريقة بيعها بالجملة أو التجزئة، فإن كان البيع بهما فالعبرة بالأغلب . ولا تقوم بالتكلفة أو السوق أيهما أقل لكن إن تعسر تقويمها تزكى بالتكلفة .

(2)
المعايير الشرعية ، المعيار الخامس والثلاثون ، معيار الزكاة (477)
٢/٢/٥ يتم تقويم عروض التجارة بالقيمة السوقية للبيع في مكان وجودها حسب طريقة بيعها بالجملة أو التجزئة ، فإن كان البيع بهما فالعبرة بالأغلب . ولا تقوم بالتكلفة أو السوق أيهما أقل لكن إن تعسر تقويمها تزكى بالتكلفة .
٢/٦/٢/٥ البضاعة قيد التصنيع : تزكي بقيمتها السوقية بحالتها يوم الوجوب فإن لم تعرف لها قيمة سوقية تزكى تكلفتها.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1698/100 المصباح : SF:015