ہمارا ایک مینو فیکچرنگ ادارہ ہے جس میں مختلف اجزائے ترکیبی ( جڑی بوٹیاں) ملا کر پروڈکٹ تیار کی جاتی ہیں اور پھران پروڈکٹس کو مارکیٹ میں عام گاہک تک پہنچا کر نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ تیار شدہ مال کو محفوظ اور مروج طریقے کے مطابق مارکیٹ تک لے جانے کیلئے ہمیں اپنی پروڈکٹ کو پیکنگ کے مرحلے سے گزارنا پڑتا ہے، اس کے لئے ہم ایک ساتھ بہت بڑےپیمانے پر پیکنگ کا سامان (packing material) تیار کروالیتے ہیں، اس پیکنگ کے سامان کی خریداری میں بھی تجارت کی نیت ملحوظ ہوتی ہے اور وہ بایں معنی کہ جب ہماری پروڈکٹ تیار ہو جاتی ہے تو ہم اس کی لاگت (cost) میں دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ پیکنگ کا ہر قسم کا خرچہ بھی شامل کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کی قیمت کا تعین کرتے ہیں۔ گویا یہ پیکنگ ہماری طرف سے مفت نہیں ہے بلکہ اس کا مکمل خرچہ پروڈکٹ کی لاگت میں لگا لیا گیا ہوتا ہے۔ اس قسم کے سامان سے متعلق کچھ مزید تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے:
عموما ًیہ پیکنگ دو یا تین قسم کی ہوتی ہیں :
• پلاسٹک کی تھیلی یا شیشے کے جار جس میں یہ پروڈکٹ محفوظ کی جاتی ہے۔
• ڈبہ جس کے اندر یہ تھیلی یا جار ڈالے جاتے ہیں۔
• کارٹن جس میں تیار شدہ ڈبے رکھے جاتے ہیں۔
اب یہ پیکنگ والا مٹیریل دو نوعیت کا ہوتا ہے:
یا تو ایسا ہوتا ہے کہ ان تینوں قسم کے پیکنگ کے سامان پر ہمارے ادارے کی چھپائی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔
ایسا پیکنگ کا مال جس پر ادارے کا "لوگو" یا تیار شدہ پروڈکٹ کی خصوصیات وغیرہ درج ہوتی ہیں اس کا اوسط 90 فیصد سے زائد تک ہے لہذاایسا مال عام مارکیٹ میں اسی حالت میں فروخت نہیں کیا جا سکتا اور اگر اسے فروخت کیا جائے تو اس کی قیمتِ فروخت، قیمتِ خریدسے بھی بہت کم ہوگی اور چونکہ وہ اس حالت میں کسی کے کام کا نہیں ہو گا اس لئے ردی کے مول بکے گا جبکہ اس کے مقابلے میں ایسا مال جو مارکیٹ میں بیچا جاسکتا ہے جیسے شیشے کے جار وغیرہ ان کی اوسط مقدار 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ اگر ان پر چھپائی نہ بھی ہوئی ہو تب بھی ہماری ضرورت کے لحاظ سے مخصوص ہیئت پر تیار شدہ پیکنگ کا یہ اکثر سامان عام مارکیٹ میں بکنے کا نہیں اس لئےاس کی موجودہ قیمت کا صحیح اندازہ اس صورت میں بھی ممکن نہیں۔
اب اس پیکنگ کے سامان کی زکوۃ کا مسئلہ در پیش ہے کہ جو سامان ہمارے پاس زکوۃ کی ادائیگی والے دن موجود ہےجو کہ لاکھوں کی مالیت کا ہوتا ہے، اس کے حوالے سے درج ذیل سوالات ہمیں در پیش ہیں:
1. پہلی بات تو یہ ہے کہ اس قسم کے سامان پر زکوۃ ہو گی یا نہیں؟ (جبکہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اس پر زکوۃنہیں ہونی چاہئے ، کیونکہ پیکنگ کے سامان کے اخراجات تیار شد ہ مال (finish goods) کی لاگت میں شامل کئے جارہے ہیں توجب یہ مال بکنے کے بعد اس سے حاصل شدہ رقم پر زکوۃ ادا کی جائیگی تو اس میں اس میٹیریل کی زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی۔
2. اگر ز کوۃ ادا کرنی ہو گی تو کونسی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا ؟
الف: قیمت ِفروخت کا ؟ (اگر قیمتِ فروخت کا اعتبار کیا جائے تو یہ عین ممکن بلکہ یقینی بات ہے کہ اس کی قیمتِ فروخت، قیمت ِخریدسے بھی کم ہوگی، اور ویسے بھی اس سامان کی قیمتِ فروخت معلوم کرنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ وہ ہمارے علاوہ کسی کے استعمال کا نہیں ہو سکتا اس لئے لازما ًردّی کا ریٹ لگانا ہو گا جو اصل ریٹ کے مقابلے میں بہت ہی کم ہو گا اور پھر پیکنگ کے اتنے زیادہ اور مختلف النوع سامان کی موجودہ قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن سا بھی ہے)
ب: یا قیمتِ خرید کا؟ اس میں آسانی بھی ہے نیز دیکھا جائے تو ہمارا اصل خریدار جو کہ عام گاہک ہوتا ہے کو پیکنگ مٹیریل کی یہی قیمتِ خرید مع اخراجات، لاگت میں لگائی جاتی ہے جیسا کہ اس سوال کے شروع میں گزرا۔
3. اسی نوعیت کا ایک اور مسئلہ بھی آجکل بہت پیش آرہا ہے کہ بڑے بڑے اسٹوروں میں یا مختلف قسم کی برانڈڈاشیاء والی دکانوں میں سامان بہت مہنگے اور خاص قسم کے شاپنگ بیگوں میں ڈال کر دیا جاتا ہے اس کی بھی کئی صورتیں ہوتی ہیں:
• یا تو اس شاپر کے الگ سے پیسے لئے جاتے ہیں جو با قاعدہ پر ائز لسٹ میں درج ہوتے ہیں۔
• یا ان شاپرز کی قیمت کو ان اشیاء کی لاگت میں با قاعدہ طور پر پہلے سے شامل کر لیا جاتا ہے۔
• یا پھر وہ شاپر مفت دئیے جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے چیز کی قیمت پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑتا بلکہ اس کی قیمت اتنی ہی رہتی ہے جتنی اس شاپر کے بغیر ہوتی۔ جیسا عام پر چون اور گلی محلے کی دکانوں میں یہی طریقہ رائج ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس بارے میں شرعی قاعدہ کیا ہو گا؟
اگر کسی کے پاس زکوۃ کے حساب کے دن بڑی مقدار میں ایسے شاپر موجود ہوں تو کس قسم کے شاپنگ بیگ قابلِ زکوۃ اَموال میں شامل ہونگے اور کس قسم کے نہیں ؟
(1)۔۔۔ زکوۃ نکالتے وقت ادارے میں دو قسم کا پیکنگ مٹیریل ہوتا ہے:
(الف) جس میں سامان پیک ہو چکا ہوتا ہے۔
(ب) خالی، جس میں اب تک سامان پیک نہیں ہوا ہوتا۔
وہ پیکنگ مٹیریل جس میں سامان پیک ہو چکا ہو ، اس کا حکم تو یہ ہے کہ اس کی علیحدہ سے زکوۃ نکالنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ جب ادارہ اس پیک شده مال( اصل سامان + پیکنگ مٹیریل) کی زکوۃ اس کی مجموعی قیمت ( جس پر آپ وہ پیکٹ ڈسٹری بیوٹر کو فروخت کرتے ہیں، مثلاً : 40 روپے) کے حساب سے نکالتا ہے تو اس سے اس پیکٹ میں موجود تمام اشیاء کی زکوۃ اداہو جاتی ہے۔
البتہ جو پیکنگ مٹیریل اختتام سال پر خالی رکھا ہو، اس میں سامان پیک نہ ہوا ہو اور بظاہر آپ کا مقصد بھی اسی خالی پیکنگ مٹیریل کی زکوۃ کا حکم دریافت کرنا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس پیکنگ مٹیریل کی علیحدہ سے زکوۃ نکالنالازم ہے،کیونکہ جب ادارہ اصل سامان کو بیچتے وقت پیکنگ مٹیریل کی قیمت کو بھی ملحوظ رکھتا ہے ، تو یہ پیکنگ مٹیریل بھی مالِ تجارت ہے، لہذا اس پر بھی زکوۃ لازم ہو گی۔
اس کی قیمت کے تعین کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس پیکنگ مٹیریل کی وجہ سے آپ اپنی مصنوعات (پروڈکٹس) کی قیمت میں جس تناسب سے اضافہ کرتے ہیں، اس تناسب کو پیکنگ مٹیریل کی قیمت سمجھ کر اس پر زکوۃ ادا کر دی جائے۔(1)
(2)۔۔۔آپ کے پیکنگ مٹیریل کی قیمت طے کرنا تو آسان ہے ، جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا۔ البتہ اگر کوئی سامانِ تجارت ایسا ہو کہ اس کی قیمتِ فروخت کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہو تو موجودہ دور کے بعض علماء نے اصل لاگت (قیمت ِخرید مع دیگر اخراجات) کے حساب سے زکوۃ ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ خصوصاًجب کسی سامانِ تجارت کی قیمت ِفروخت اس کی اصل لاگت سے یقینی طور پر کم ہو تو ایسی صورت میں اصل لاگت کے حساب سے زکوۃ نکالنے پر بلاشبہ زکوۃ اداہو جائے گی۔(2)
(3)۔۔۔پرچون کی دکان پر جو شاپر سامان کے ساتھ دیئے جاتے ہیں، عمو ماًوہ انتہائی کم قیمت ہوتے ہیں اور عرفاًسامان کی قیمت میں ان کی قیمت کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، نہ ہی ان کی وجہ سے سامان کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، لہذا یہ شاپرپر چون والے کیلئے مال ِتجارت نہیں ، اور اس پر ان کی زکوۃ لازم نہیں ہے۔ البتہ جن اسٹوروں پر قیمتی شاپر ہوتے ہیں اور ان کے الگ سے پیسے لیے جاتے ہیں یا ان کی قیمت کو اصل اشیاء کی لاگت میں شمار کر کے ان کی وجہ سے اصل سامان کی قیمت میں با قاعدہ اضافہ کیا جاتا ہے تو پھر یہ شاپر سامانِ تجارت ہیں اور ان دوکانداروں پر ان کی قیمتِ فروخت کے حساب سے زکوۃ لازم ہو گی ۔(3)
(1)
الفتاوى الهندية (1 / 180)
ولو أن نخاسا يشتري دواب أو يبيعها فاشترى جلاجل أو مقاود أو براقع فإن كان بيع هذه الأشياء مع الدواب ففيها الزكاة، وإن كانت هذه لحفظ الدواب بها فلا زكاة فيها كذا في الذخيرة. وكذلك العطار لو اشترى القوارير، ولو اشترى جوالق ليؤاجرها من الناس فلا زكاة فيها؛ لأنه اشتراها للغلة لا للمبايعة كذا في محيط السرخسي.والخباز إذا اشترى حطبا أو ملحا لأجل الخبز فلا زكاة فيه، وإذا اشترى سمسما يجعل على وجه الخبز ففيه الزكاة كذا في الذخيرة.
المعايير الشرعية ، المعيار الخامس والثلاثون ، معيار الزكاة (478)
۱٠/٢/٥ : لا تقوم المواد المعدة للتغليف و التعبئة إذا لم يقصد بها المتاجرة مفردة ،لكن إن كانت تزيد في قيمة السلع فإنها تدخل في التقويم .
(2)
المعايير الشرعية ، المعيار الخامس والثلاثون ، معيار الزكاة (477)
7/7/0يتم تقويم عروض التجارة بالقيمة السوقية للبيع في مكان وجودها حسب طريقة بيعها بالجملة أو التجزئة ، فإن كان البيع بهما فالعبرة بالأغلب ، ولا تقوم بالتكلفة أو السوق أيهما أقل ، لكن إن تعسر تقويمها تزكى بالتكلفة.
٢/٦/٢/٥ البضاعة قيد التصنيع : تزكي بقيمتها السوقية بحالتها يوم الوجوب ، فإن لم تعرف لها قيمة سوقية تزكي تكلفتها.
(3)
المحيط البرهاني (2 / 249)
قال «القدوري» : وآلات الصناع الذين يعملون بها وظروف الأمتعة، لا تجب فيها الزكاة؛ لأنها غير معدة للتجارة. ولو أن نخاسا يشترى دوابا ويبيعها، فاشترى جلاجل ومقادد وبراقع فإن كان يبيع هذه الأشياء مع الدواب ففيها الزكاة، وإن كانت لحفظ الدواب فلا تجب الزكاة بمنزلة له آلات الصناع، وكذلك إذا كان من يبيعه إنما يسلم هذه الأشياء لمن يشترى، لا على وجه البيع فلا زكاة فيها، وهي بمنزلة ثياب الخدم التي يسلم البائع مع الخدم في البيع.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1 / 173)
وقوارير العطارين ولجم الخيل والحمير المشتراة للتجارة ومقاودها وجلالها إن كان من غرض المشتري بيعها بها ففيها الزكاة، وإن كانت لحفظ الدواب فلا زكاة فيها كالقدور وغيرها من آلة الصباغين كما في الفتح والمعراج والجوالق المشتراة للإجارة لا زكاة فيها كما في غاية البيان.
المعايير الشرعية ، المعيار الخامس والثلاثون ، معيار الزكاة (478)
۱۰/۲/۰ : لا تقوم المواد المعدة للتغليف و التعبئة إذا لم يقصد بها المتاجرة مفردة ، لكن إن كانت تزيد في قيمة السلع فإنها تدخل في التقويم .واللہ تعالی اعلم