Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


بچوں کی ملکیت میں موجود زیور کی زکوۃ کا حکم


سوال

زیور وغیرہ کی زکوۃ کے معاملے میں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ بچہ کی ملکیت ہو تو اس کے بالغ ہونے تک اس پر زکوۃ نہیں ، اب پوچھنا یہ ہے کہ بچہ کی ملکیت سے کیا مراد ہے؟ کیونکہ اگر کوئی چیز بچوں کی ملکیت میں دی بھی جائے تو وہ پھر بھی والدین ہی کے قبضہ میں موجود ہوتی ہے کیونکہ بچے سنبھال نہیں سکتے۔ لہذا اگر کسی زیور وغیرہ کا بچے کو مالک بنایا جائے تو اس کا کیاطریقہ ہو گا اور اس زیور پر والدین کو کس حد تک حق رہے گا ؟

جواب

نابالغ بچہ کو کوئی چیز ہبہ (گفٹ) کی جائے تو ایسی صورت میں ہبہ مکمل ہونےکیلئے بچہ کا اس پر قبضہ کرناضروری نہیں، بلکہ اس کے ولی کا قبضہ بھی کافی ہے، لہذا اگر عملی طور پر زیور بچہ کے حوالے کر دیا جائے یا والد اپنے نابالغ بچہ کو مالک بنانے کی نیت سے زیور زبانی طور پر ہبہ کر دے یا والدہ وہ زیور ہبہ کی نیت سے بچہ کے والد کے حوالےکر دے، یاوالد کے نہ ہونے کی صورت میں والدہ زبانی طورپر ہبہ کر کے اپنے قبضہ میں رکھے تو ان تمام صورتوں میں بچہ کی ملکیت آجائے گی، اس کے بعد وہ والدین کے قبضہ میں امانت ہو گا۔ والدین اس کو ذاتی استعمال میں خرچ نہیں کر سکتے،اور بچہ کے بالغ ہونے سے پہلے اس پر زیور کی زکوۃ بھی فرض نہیں ہوگی۔

لیکن اگر اس تفصیل کے مطابق بچہ کو زیور زبانی طور پر نہیں دیا گیا بلکہ دینے کی صرف نیت کی ہو، یا صرف اس کے نام سے رکھا گیا ہو کہ شادی وغیرہ کے موقع پر اسے دیدیں گے اور بوقت ضرورت خود بھی استعمال کرتے رہیں گےتو یہ ہبہ درست نہیں ہوگا اور زیور بچہ کی ملکیت میں نہیں آئے گا۔ لہذا والدین میں سے جس کی ملکیت میں یہ زیور ہو گااس پر زکوۃ کے شرعی اصولوں کے مطابق زکوۃ فرض ہو گی۔

الفتاوى الهندية (391/4)
وهبة الأب لطفله تتم بالعقد ولا فرق في ذلك بينما إذا كان في يده أو في يد مودعه بخلاف ما إذا كان في يد الغاصب أو في يد المرتهن أو في يد المستأجر حيث لاتجوز الهبة لعدم قبضه وكذا لو وهبه أمه وهو في يدها والأب ميت وليس له وصي وكذا كل من يعوله كذا في التبيين.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2006/3 المصباح : SF:035
10 0