Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


اکاؤنٹ کھلواتے وقت نصاب سے کم رقم رکھوانے کی صورت میں ڈیکلریشن فارم بھرنا


سوال

آج کل بینکوں کے سیونگ اکاؤنٹ خواہ وہ اسلامی بینک ہوں یا سودی، میں جب رقم رکھوائی جاتی ہے تو اسٹیٹ بینک کے ضابطےکے مطابق بینک یکم رمضان کو ان کی زکوٰۃ کاٹتا ہے ، جبکہ اگر کوئی شخص بینک کے ذریعے زکوٰۃ ادانہ کرنا چاہے تو اس کے لئے وہ
منسلکہ ڈیکلریشن فارم اسٹامپ پیپر پر لکھ کر جمع کرواتا ہے ۔

فارم کے مندرجات کے مطابق فارم بھرنے والا شخص درج ذیل حلفیہ بیان دیتا ہے:

میں فلاں بن فلاں نہایت سنجیدگی سے خدا کی قسم کھا کر یہ کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور میرا تعلق فقہ ۔۔۔۔۔ (یہاں ہر آدمی اپنی فقہ لکھتا ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔ سے ہے اور میرے ایمان اور فقہ کے مطابق مندرجہ ذیل اثاثوں کی زکوٰۃ میرے اوپر واجب نہیں ہے:یہاں اثاثے لکھے جاتے ہیں ، جو کہ تقریباً وہی ہوتے ہیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ، مثلاً اکاؤنٹس ، نقد رقم ، مختلف فنڈز، وغیرہ

جواب طلب امور یہ ہیں:

1. کسی صاحب نصاب حنفی شخص کو زکوٰۃ کی کٹوتی سے بچنے کے لئے مندرجہ بالا فارم جمع کروانا جائز ہے؟

2. اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب نہیں ہے یعنی بینک میں جمع شدہ رقم کے بقدر ہی اس کے اوپر قرضہ بھی ہے تو کیا اس کے لئےیہ فارم بھرنا جائز ہے؟

3. کوئی شخص اکاؤنٹ کھلواتے وقت صاحبِ نصاب نہیں ہے یا صاحب ِنصاب تو ہے لیکن بینک میں فارم جمع کرواتے وقت صرف اتنی رقم جمع کروا رہا ہے جو نصاب کے بقدر نہیں تو کیا اس کے لئے مذکورہ حلفیہ بیان والا فارم جمع کروانا جائز ہے ؟

4. اگر کوئی شخص اپنی زکوٰۃ بینک کی بجائے از خود ادا کرنا چاہتا ہے ،یا اس نے اپنی رقم کی زکوٰۃ ادا کر دی ہے ، یا بینک کی کٹوتی کی تاریخ کو اس کا سال ہی پورا نہیں ہوتا تو ان تمام صورتوں میں مذکورہ فارم کے ذریعے حلفیہ بیان دینا جائز ہے یا نہیں؟ واضح رہےکہ فارم کے الفاظ اس شخص پر مطلقاً زکوٰۃ کے واجب نہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔

5. مذکورہ فارمز تجارتی اداروں میں منافع کی تقسیم پر لگنے والی زکوٰۃ، کمپنی کے منافع پر لگنے والی زکوٰۃ، اسی طرح ملازمین کےمختلف فنڈز ادا کرتے وقت ان پر لگنے والی زکوٰۃ ، مزید اس طرح کے قابل ِزکوٰۃ اَموال سےبیچنے کے لئے بھی بھرے جاتے ہیں ۔

جواب

سوال کے ساتھ منسلک ڈیکلریشن فارم کی انگریزی عبارت"I am not obliged to pay zakat" کالازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ میرےاو پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بینک میں جمع رقم سے یا حکومت کے تقسیمِ زکوٰۃ کے غیر شفاف نظم کے تحت زکوٰۃ ادا کرنا مجھ پر لازم نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی قرض مانگنے والے کو کہتے ہیں کہ میں اتنی رقم نہیں دے سکتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ آپ کے پاس لازمی طور پر اتنی رقم نہیں۔ بلکہ مراد یہ ہوتا ہے کہ اپنی ضروریات سے زائد اتنی رقم نہیں کہ آپ کو دے سکوں۔اس تمہید کی روشنی میں آپ کے سوالوں کے جوابات درج ذیل ہیں:
(1)۔ ۔۔جائز ہے۔ لیکن زکوٰۃ تو پھر بھی اسے انفرادی طور پر ادا کرنا ہی ہو گی۔
(2)۔ ۔۔جائز ہے۔
(3)۔۔۔ جائز ہے۔ اگر صاحبِ نصاب ہے تو الگ سے اپنی زکوۃ ادا کرنا فرض ہے۔
(4)۔۔۔ جائز ہے۔ وضاحت او پر گذر چکی۔
(5)۔۔۔ سب صورتوں کا حکم یکساں ہے۔ البتہ صاحبِ نصاب شخص پر الگ سے انفرادی طور پر اپنی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔
نوٹ: اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود اپنی انفرادی زکوٰۃ بھی ادا نہ کرتا ہو اور فارم جمع کرا کے بینک کے ذریعہ سے بھی زکوٰۃ سے بچناچاہے تو ایسے شخص نے اپنے احوال کے متعلق جھوٹی قسم کھا کر غلط خبر دی جس کا کفارہ تو نہیں ہے البتہ جھوٹی قسم کھانے کا عظیم گناہ ہو گا۔


دارالافتاء : دارالافتاء برائے مالیاتی وتجارتی اُمور فتویٰ نمبر : المصباح : MDX:013