ہمارا ایک مینو فیکچرنگ ادارہ ہے جس میں مختلف اجزائے ترکیبی (جڑی بوٹیاں ) ملا کر پروڈکٹ تیار کی جاتی ہے اور پھران پروڈکٹس کو مارکیٹ میں عام گاہک تک پہنچا کر نفع حاصل کیا جاتا ہے ، ہمارے پاس خام مال بڑی مقدار میں موجود رہتا ہےاس لئے اس کی زکوۃ کی ادائیگی سے متعلق چند امور میں رہنمائی درکار تھی۔ خام مال سے مراد وہ مختلف اجزائے ترکیبی ہیں جو ہم اپنی پروڈکٹ میں استعمال کرتے ہیں۔ ان کی دو صورتیں ہوتی ہیں:
الف: بعض ایسے ہوتے ہیں جو عام مارکیٹ میں دستیاب بھی ہوتے ہیں اور ہر وقت بک بھی سکتے ہیں۔ البتہ قیمت خرید کےمقابلہ میں کم قیمت پر ہی سکتے ہیں۔
ب: بعض ایسے ہوتے ہیں جو عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتے یا عموماً باہر سے امپورٹ کئے جاتے ہیں اور ہمارے سوایہاں انہیں کوئی استعمال نہیں کرتا، تو اگر ایسے اجزاء مارکیٹ میں بیچے جائیں تو ان کی موجودہ قیمت، قیمت ِخرید سے بہت کم نکلے۔
اب ہمیں یہ مسئلہ در پیش ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی کیلئے ان کی کو نسی قیمت کا اعتبار کیا جائے ؟ ان دونوں قسم کے اجزاء کی قیمت لگانےکے اعتبار سے سے تین صورتیں بنتی ہیں:
الف: مارکیٹ پرائس
ب: قیمت فروخت
ج :قیمت خرید
ذیل میں ان کی تفصیل درج ہے:
الف: مارکیٹ پرائس:
اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس موجود خام مال کی اس وقت مارکیٹ میں جو قیمت چل رہی ہے (اگر معلوم ہو جانے والی ہو ) تواسے معیار بنا کر زکوۃ ادا کر دی جائے جیسے سونے کی زکوۃ میں مارکیٹ کی قیمت کے مطابق زکوۃ ادا کی جاتی ہے۔
ب: قیمت ِفروخت:
جب ہم کسی شئے کو خام مال کی عام مارکیٹ سے خریدتے ہیں تو کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے، پہلے مختلف سپلائرز سے اس چیز کےنمونے (sample) لیتے ہیں۔ پھر وہ اپنے ہاں کوالٹی کے شعبہ سے پاس کرواتے ہیں ، چیز کے معیار، کوالٹی ، علاقے وغیرہ کے اعتبار سے ان کی قیمت لگتی ہے پھر مختلف سپلائرز کی قیمتوں کے درمیان تقابل کر کے اور ان سے قیمتیں کم وغیرہ کروا کے مال خریدتے ہیں۔ مال خریداری کے بعد ہم دوبارہ کبھی اسے خام مال کی مارکیٹ میں نہیں بیچتے بلکہ جلد یا بدیر اپنے ہی استعمال میں آجاتا ہے اور پروڈکٹ تیار کر کے گاہک کو فروخت کی جاتی ہے۔ اب اگر ہم کسی چیز کی " خام مال کی عام مارکیٹ" کی حقیقی قیمتِ فروخت معلوم کرنا چاہیں تو یہ بہت مشکل ہو گا اور اس میں کئی مسائل ہیں ، مثلاً:
1. اس مال کی حقیقی قیمتِ فروخت معلوم کرنے کیلئے انہی مراحل سے گزرنا پڑے گا جو خریداری کے وقت کئے گئےتھے کیونکہ کوالٹی کی تعین کے بغیر کوئی ہم سے خریدنے کے لئے تیار نہیں ہو گا، چنانچہ لازمی طور پر خرید نے والاہمارے مال کے سیمپلز حاصل کرے گا اور اس کے بعد مشورہ وغیرہ کر کے ہمیں قیمت بتائے گا، اور اس طرح یہ ایک مشکل اور طویل مرحلہ ہو جائے گا۔
2. ہماری خرید کردہ اشیاء کی فہرست بہت طویل ہے اور اگر ان سب کی قیمتِ فروخت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے تو بہت زیادہ وقت درکار ہو گا اور مشکلات پیش آئیں گی۔
3. بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی خاص موسم (season) میں خرید کی جاتی ہیں اور اگر زکوۃ نکالتے وقت ان کی قیمتِ فروخت کا اعتبار کیا جائے تو بہت سا فرق آ سکتا ہے کیونکہ اس وقت وہ اشیاء مارکیٹ میں موجود نہیں ہو تیں تو بعض
اوقات ریٹ بہت گر جاتا ہے اور بعض دفعہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
4. پھر ان میں سے کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم باہر سے امپورٹ کرتے ہیں اور جن کی یہاں کوئی مارکیٹ نہیں ہوتی اس لئے ان کی موجودہ قیمت کا اندازہ لگانے میں بہت زیادہ مشکلات ہیں جیسا کہ اوپر گزرا۔
5. اس تمام صورتحال کے باوجود اگر ہم کسی طرح حقیقی قیمتِ فروخت معلوم کر بھی لیں تو عمومی طور پر وہ قیمت خرید اور مارکیٹ ریٹ سے بھی کم ریٹ ہو گا کیونکہ ہماری طرح کا کوئی ادارہ جب کبھی اپنا کوئی مال بیچنا چاہے تو خرید نے والا عموماًپہ سوچتا ہے کہ یہ اپنا مال کیوں بیچ رہے ہیں، ظاہر ہے کوئی خامی ہوگی تو بیچنا چاہتے ہیں ، اس لئے اس گمان پر خرید نےوالے اس چیز کا اس سے بھی کم ریٹ لگاتے ہیں جو اس وقت مارکیٹ میں چل رہا ہوتا ہے۔
بہر حال صورتحال یہ ہے کہ ہم اگر کسی چیز کی قیمت فروخت ایسی طرح معلوم کرنا چاہیں کہ وہ بالکل حقیقی ہو یا حقیقت
کے قریب قریب ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ بالا طویل مراحل سے گزرنا ضروری ہے اور اگر ان مراحل سے گزرے
بغیر ریٹ لگانے کی کوشش کریں تو وہ محض فرضی ریٹ ہو گا، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
ج :قیمت خرید:
خام مال کی زکوۃ دینے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی قیمتِ خرید سسٹم میں موجود ہوتی ہے لہذ از کوۃ کا حساب کرتے وقت اس قیمت کو پیش نظر رکھ کر زکوۃ ادا کر دی جائے۔
مذکورہ تمام تفصیل کے بعد جواب طلب امور یہ ہیں:
1. مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں ہم خام مال کی کونسی قیمت کا اعتبار کر کے زکوۃ کا حساب لگائیں ؟ برائے مہربانی کوئی ایسا قابلِ عمل حل بتائیں جس کو اختیار کر کے ہم اپنی پوری زکوۃ کم سے کم وقت میں ، سہل انداز میں بناسکیں۔
2. کیا شرعاً اس کی گنجائش بنتی ہے کہ ہم قیمت ِخرید کا ہی اعتبار کر لیا کریں؟ جبکہ دیگر صورتوں میں خام مال بڑےپیمانے پر ہونے میں کافی مشکلات ہیں۔
3. یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ قیمتِ خرید کے علاوہ پہلی دونوں قیمتوں (مارکیٹ پرائس اور قیمت فروخت) کی تعیین میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے، اس لئے کہ ایک ہی طرح کے مال کی قیمت مارکیٹ میں مختلف چل رہی ہوتی ہے، ایسی صورت میں جبکہ ایک چیز کی مارکیٹ پرائس یا قیمت فروخت معلوم کرنے پر مختلف قیمتیں حاصل ہوں تو ان میں سے کس قیمت کا اعتبارہو گا، اور قیمت کے تعین کا کیا طریقہ کار ہو گا ؟
(1،2)۔۔۔ مذکورہ خام مال شر عاًمال تجارت ہے، لہذا اس کا اصل حکم تو یہی ہے کہ اس کی زکوۃ قیمتِ فروخت کے حساب سے نکالنا ضروری ہے۔ اس لئے اولاً تو یہی کوشش کی جائے کہ قیمتِ فروخت کا انداز لگا کر اس کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے ، خواہ وہ قیمت ِخرید سے کم ہو یاز یادہ۔ تاہم اگر قیمتِ فروخت کا درست اندازہ لگانا مشکل ہو تو اصل لاگت یا قیمت خرید کے حساب سےزکوۃ نکالنا بھی جائز ہے، جبکہ ظنِ غالب ہو کہ قیمت ِفروخت اس سے کم ہی ہو گی، زیادہ نہ ہو گی۔(1)
(3)۔۔۔ اگر کسی سامانِ تجارت کی قیمت بازار میں مختلف چل رہی ہو تو اس وقت زکوۃ کی ادائیگی میں کونسی قیمت کا اعتبار کیا جائے ؟ اس سے متعلق کتب فقہ میں کوئی تصریح نہیں مل سکی۔ البتہ فقہاء کرام نے یہ مسئلہ ذکر کیا ہے سامانِ تجارت کی قیمت سونے کے حساب سے الگ ہو اور چاندی کے حساب سے الگ، تو اس صورت میں وہ قیمت لگائی جائے گی جس میں زکوۃزیادہ بنتی ہو، کیونکہ اس میں فقراء کا فائدہ زیادہ ہے۔ اس قاعدہ کے رو سے صورت ِمسئولہ میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ادائیگی زکوۃ میں اس قیمت کا اعتبار کیا جائے جس میں فقراء کا فائدہ زیادہ ہو۔(2)
(1)
المعايير الشرعية ، المعيار الخامس والثلاثون ، معيار الزكاة (477)
٢/٢/٥ يتم تقويم عروض التجارة بالقيمة السوقية للبيع في مكان وجودها حسب طريقة بيعها بالجملة أو التجزئة ، فإن كان البيع بهما فالعبرة بالأغلب . ولا تقوم بالتكلفة أو السوق أيهما أقل ، لكن إن تعسر تقويمها تزكى بالتكلفة .
١/٦/٢/٥ المحزون السلعي المعد للتجارة ، والمواد الخام بأنواعها ، والبضائع المعدةللبيع علي حالتها أو بعد تحويلها بتصنيعها مع إضافة مواد أو قطع أخري إليها :يزكي بالقيمة السوقية للبيع .
وإذا كانت البضاعة معيبة : فتزكى بالقيمة السوقية بحسب بيعها جملة أو تجزئة ، فإن كان البيع بهما فالعبرة بالأغلب ، وإذا كانت البضاعة بطيئة الحركة فتزكي بقيمتهاالسوقية بحالتها الراهنة....
٢/٦/٢/٥ البضاعة قيد التصنيع : تزكي بقيمتها السوقية بحالتها يوم الوجوب .لم تعرف لها قيمة سوقية تزكى تكلفتها ....
٨/٢/٥ ما يوجد في نهاية الحول من مواد عام (أولية) مما يدخل عادة في تركيب المادة المصنوعة المقصود بها التجارة وتبقى عينه يزكي بحسب القيمة السوقية قبل دخوله في المصنوعات ، أما المواد المساعدة التي لا تدخل في تركيب المصنوعات ولاتبقى عينها ، مثل الوقود ومواد التنظيف فلا زكاة فيها.
٩/٢/٥ تزكى السلع المصنعة وغير المنتهية الصنع المقصود بها التجارة زكاة عروض التجارة بحسب القيمة السوقية وبحالتها الراهنة.
(2)
فتح القدير للكمال ابن الهمام (2/ 220)
قال في النهاية في وجه هذه الرواية: إن المال كان في يد المالك ينتفع به زمانا طويلافلا بد من اعتبار منفعة الفقراء عند التقويم، ألا ترى أنه لو كان يقومه بأحد النقدين يتم النصاب وبالآخر لا فإنه يقومه بما يتم به النصاب بالاتفاق فهذا مثله انتهى.وفي الخلاصة قال: إن شاء قومها بالذهب وإن شاء بالفضة، وعن أبي حنيفة أنه يقوم بما هو الأنفع للفقراء. وعن أبي يوسف يقوم بما اشترى، هذا إذا كان يتم النصاب بأيهما قوم، فلو كان يتم بأحدهما دون الآخر قوم بما يصير به نصابا انتهى.فإنما يتجه أن يجعل ما فسر به بعض المراد بالأنفع، فالمعنى يقوم المالك بالأنفع مطلقافيتعين ما يبلغ به نصابا دون ما لا يبلغ: فإن بلغ بكل منهما وأحدهما أروج تعين التقويم بالأروج.
الدر المختارمع رد المحتار (2 / 299)
(مقوما بأحدهما) إن استويا فلو أحدهما أروج تعين التقويم به؛ ولو بلغ بأحدهمانصابا دون الآخر تعين ما يبلغ به ولو بلغ بأحدهما نصابا وخمسا وبالآخر أقل قومه بالأنفع للفقير سراج.
(قوله: مقوما بأحدهما) تكرار مع قوله من ذهب أو ورق؛ لأن ما معناها التخييرومحل التخيير إذا استويا فقط. أما إذا اختلفا قوم بالأنفع اھ ح .. (قوله: تعين التقويم به) أي إذا كان يبلغ به نصابا لما في النهر عن الفتح: يتعين ما يبلغ نصابا دون مالا يبلغ، فإن بلغ بكل منهما وأحدهما أروج تعين التقويم بالأروج (قوله: ولو بلغ بأحدهما نصابا وخمسا إلخ) بيانه ما في النهر عن السراج: لو كان بحيث لو قومهابالدراهم بلغت مائتين وأربعين وبالدنانير ثلاثا وعشرين قومها بالدراهم لوجوب ستةفيها، بخلاف الدنانير فإنه يجب فيها نصف دينار وقيمته خمسة، ولو بلغت بالدنانيرأربعة وعشرين وبالدراهم مائة وستة وثلاثين قومها بالدنانير... اھ. وفي الهداية كل دينارعشرة دراهم في الشرع. قال في الفتح: أي يقوم في الشرع بعشرة كذا كان في الابتداء .