ہمارا میٹ ایکسپورٹ کا کام ہے جس میں ہماری پیمنٹ ڈالرز میں بھی آتی ہے، کمپنی کی زکوۃ بناتے وقت ہمارے پاس نقدی کی صورت میں پاکستانی روپے کے ساتھ ساتھ ڈالرز بھی ہوتے ہیں زکوۃ کے حساب میں ڈالرز کی قیمت کی تعیین کے حوالے سے دار الافتاء سے فتویٰ( 2580/96) لیا گیا ہے اس میں یہ فرمایا گیا کہ ڈالر کی زکوۃ کی ادائیگی میں ڈالر کی یوم الاداءکی قیمت کا اعتبار کیا جائےگا۔ یوم الاداءکا اعتبار کرنے میں عملی طور پرچند دشواریاں ہیں:
1. ہم اپنی زکوۃ کی تاریخ پر اپنے تمام قابل زکوۃ اثاثوں کی زکوۃ کا حساب ایک ساتھ ہی بنالیتے ہیں اور پھر ادا ئیگی وقتافوقتاً تھوڑی تھوڑی مقدار میں کی جاتی ہے، لہذا ہر دفعہ دیتے وقت ڈالر کی نئی قیمت لگا کر کل مال کا حساب دوبارہ کرنا دشوار ہے۔
2. زکوۃ دیتے وقت اس بات کا لحاظ کرنا مشکل ہے کہ یہ زکوۃ ڈالر کی دی جارہی ہے یا بقیہ مال کی، ہر بار یوم الاداء کا اعتبار کرنے میں صرف ڈالر کی زکوۃ میں فرق نہیں پڑیگا بلکہ تمام زکوۃ کا حساب متاثر ہو گا۔
3. ڈالرز کی زکوة کیلئے اگر یوم الاداء کا اعتبار کیا جائے تو چونکہ ادائیگی ڈالرز ملنے کے بعد کی جاتی ہے اور ڈالر ز وصول ہونے کا بھی کوئی حتمی وقت متعین نہیں ہے ۔ لہذا جب بھی کبھی ڈالر وصول ہونگے زکوۃ کا سارا حساب دوبارہ کرنا پڑیگا۔ اس اعتبار سے زکوۃ کا حساب بنانے میں حرج اورمشکلات ہیں، آپ حضرات رہنمائی فرمادیں نوازش ہوگی۔
کیا مذ کور ہ حرج اور مشکلات کی وجہ سے یوم الاداء کے بجائے یوم الوجوب (حساب کی تاریخ) کو بنیاد بنا کر حساب لگانا جو کہ حساب لگانے میں زیادہ آسان اور بہتر ہے جائز ہو گا ؟
واضح رہے کہ مذکورہ مسئلہ میں حضراتِ صاحبین کا قول مفتی بہ ہے، اس پر عمل کرنے کی آسان صورت یہی ہے کہ آپ قابلِ زکوۃ اموال میں سے ڈالرز کی زکوۃ کا حساب علیحدہ رکھیں اور ترجیحی بنیاد پر پہلےڈالرز کی زکوۃ ادا کریں، تاکہ سوال میں ذکر کردہ مشکلات نہ ہوں۔ البتہ واقعتا سائل کو اس پر عمل کرنے میں اگر سوال میں ذکر کردہ دشواریاں پیش آرہی ہیں اور حرج ہو رہاہے تو ایسی صورت میں حضرت امام صاحبؒ کے یوم الوجوب والے قول پر عمل کرلینے کی گنجائش ہے۔ (مستفاد من التبويب (1625 /24)