Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


دوسرے جانوروں کے سامنے جانور کا ذبح کرنے کا شرعی حکم


سوال

ہم مذبح خانوں سے گوشت خرید کر بیرون ملک ایکسپورٹ کرتے ہیں، یہاں کے مذبح خانوں میں قصائی حضرات کے ذبح سے متعلق چند امور کےبارے میں آپ سے دریافت کرنا تھا:

1. ذبح کے وقت قصائی حضرات بعض دفعہ جانور کو جلدی ٹھنڈا کرنے کے لئے حرام مغز پر چھری مارتے ہیں ، جس سے جانور کو تکلیف میں زیادتی ہوتی ہے لیکن وہ جلدی ٹھنڈ ا ہو جاتا ہے،اس کاشر عاًکیا حکم ہے؟

2. اسی طرح جلدی ٹھنڈا کرنے کے لئے عموماًذبح کے فوراً بعد جانور کے سینے کے قریب چھری مارتے ہیں، جس سے خون تیزی سے نکل جاتا ہے ، اس کو وہ اپنی زبان میں ”نحر ا کرنا "کہتے ہیں، اس کاشرعاً کیا حکم ہے؟

3. عموماً جانور اور قصائی کا رخ قبلہ رخ نہیں ہو تا، بلکہ جس طرف سہولت ہو جانور کو ذبح کر دیا جاتا ہے ، اس کا کیا حکم ہے؟

4. جانور کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کیا جاتا ہے، اور واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ جانور اس سے بہت زیادہ خوف زدہ ہو جاتا ہے،اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

5. کھال اتارنے کے بعد سینہ چاک کرنے کے بعد اوجھڑی کو بھی قصداًیا غفلت سے چاک کر دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے گوشت آلودہ ہو جاتا ہے ، جس کو بعد میں دھو لیا جاتا ہے ، ایسا کرناشر عاً کیا حیثیت رکھتا ہے ؟

6. جلدی میں بعض دفعہ (بہت کم) ایسا بھی ہوتا ہے ، کہ پوری طرح ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال اتار ناشروع کر دیتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب دیتے وقت یہ ملحوظ رہے کہ مذبح خانوں میں جانور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں ذبح ہوتے ہیں، اس قدر کثرت کی وجہ سے مستحبات کااہتمام کرنا یا مکروہات سے اجتناب کرنا عموماً بہت مشکل ہوتا ہے، اگر مذکورہ اُمور کا لحاظ کرنا شروع کر دیا جائے تو ہمارے لئے روزانہ کےہزاروں آرڈرز کو پورا کرنا بہت مشکل ہو جائے گا، لہذا اس اَمر کو ملحوظ رکھتے ہوئے جواب عنایت فرمائیے کہ اگر مذکورہ اُمور ممنوع ہیں تو کیا ایسےحالات میں ان کو انجام دینے کی گنجائش ہے۔

جواب

واضح رہے کہ ذبح کے لئے ہر وہ طریقہ اختیار کرنا جس سے جانور کو ذبح کے وقت ہونے والی لازمی تکلیف میں زیادتی ہوتی ہو مکروہ تحریمی ہے، (دیکھئے عبارات 1 تا 12 ) اور جن افعال کو فقہاء کرام نے مکروہ تحریمی قرار دیا ہو یاجن افعال کی شریعت میں ممانعت آئی ہو ، اُن افعال کے ارتکاب کی اجازت نہیں اور آرڈرز کا پورا نہ ہو سکنا ایسا عذرنہیں ہے کہ جس سے مکروہ تحریمی کا ارتکاب جائز ہو جائے۔ (دیکھئے عبارت 13)

لہذا اگر مذبح خانہ میں آرڈر ز زیادہ آتے ہیں تو اسی تناسب سے جانوروں کے ذبح کرنے کے لئے مزید افراد اوردیگر انتظامات کر لیے جائیں کہ جن سے شریعت کی ممنوع کردہ چیزوں کا ارتکاب لازم نہ آتا ہو اور بہتر یہ ہے کہ ایسے مذبح خانوں کے منتظمین کسی مستند عالم دین کو مذبح خانہ دکھا کر معلوم کر لیں کہ کس طرح اُسے شریعت کےاصولوں کے مطابق بنایا جا سکتا ہے، اس تمہید کے بعد سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں۔

(1،2،6)۔۔۔ ذبح کے فوراً بعد جانور کے پوری طرح ٹھنڈا ہونے سے پہلے حرام مغز یا سینے پر چھری مارنا یاکھال اُتار نا ناجائز ہے۔

(3)۔۔۔ جانور کا ذبح کے وقت قبلہ رخ ہونا مسنون ہے ، اور اس کے ترک سے سنت پر عمل کرنے سےمحرومی لازم آتی ہے لیکن ذبیحہ مردار نہیں ہوتا۔ (دیکھئے عبارات 14،15)

(4)۔۔۔جانور کے سامنے دوسرے جانورکو ذبح کرنا ممنوع ہے ، اس لئے کہ جانوروں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے ، اور شریعت نے جانوروں کے ساتھ بھی احسان کا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

چنانچہ صحیح مسلم میں شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ :

اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے متعلق حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے ، پس اگر تمہیں کسی کو (قصاص وغیرہ میں ) قتل کرنا ہو ، تو بہتر ہیئت میں قتل کرو (کہ آسانی سے جان نکل جائے ) اور کسی جانور کو ذبح کرنا ہو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، چنانچہ پہلے اپنی چھری کو خوب تیز کر لو ( تا کہ جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو)(17)

اور السنن الکبری للبیہقی میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

نبی کریم ﷺنے چھریوں کی دھار کی جانب سے ذبح کرنے کا حکم فرمایااور حکم فرمایا کہ چھریاں جانوروں کی آنکھ سے چھپا کر رکھی جائیں،پھر فرمایا: "جب تم میں سے کوئی ذبح کرے تو اچھے طریقے سے کرے۔(18)

اور مستدرک للحاکم میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :

ایک شخص نے ایک بکری ذبح کرنے کے لئے لٹائی اور چھری تیز کرنےلگ گیا تو آپﷺ نے اُسے ارشاد فرمایا ”کیا تو اسے کئی موتیں دینا چاہتاہے، تو نے اسے لٹانے سے پہلے ہی کیوں نہ چھری تیز کر لی(19)

(5)۔۔۔ اس طریقے سے گوشت آلودہ کر نا طہارت اور نظافت کے خلاف ہے لہذا اس سے بھی اجتناب کرنالازم ہے، تاہم اگر اس طرح گوشت آلودہ ہو جائے تو دھوکر پاک کرنے کے بعد اس کا استعمال جائز ہو گا۔

1. صحیح مسلم (3 / 1548).
عن شداد بن أوس، قال: ثنتان حفظتهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله كتب الإحسان على كل شيء، فإذا قتلتم فأحسنواالقتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح وليحد أحدكم شفرته، فليرح ذبيحته»

2. تكملة فتح الملهم( 540/3)
وكل طريق ادي الحيوان الي تعديب اكثر من اللازم لازهاق روحه فهو داخل في النهي وما مور بالاجتناب عنه مثل أن يحد الشفرة بحضرة الحيوان او يذبحه بمرأي من أخر وما الي ذالك.

3. المستدرك على الصحيحين للحاكم (4 / 257)
عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما أن رجلا أضجع شاة يريد أن يذبحها وهو يحد شفرته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أتريد أن تميتهاموتات هلا حددت شفرتك قبل أن تضجعها هذا حديث صحيح على شرط البخاري ولم يخرجاه ".

4. تفسير القرطبي (6 / 56)
قال علماؤنا إحسان الذبح في البهائم الرفق بها، فلا يصرعها بعنف ولايجرها من موضع إلى آخر، وإحداد الآلة، وإحضار نية الإباحة والقربة وتوجيهها إلى القبلة، والإجهاز .

5. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 60)
وروي ‌عن ابن سيرين ‌عن سيدنا عمر رضي الله عنهما أنه رأى رجلا يسوق شاة له ليذبحها سوقا ‌عنيفا فضربه بالدرة ثم قال له سقها إلى الموت سوقا جميلا لا أم لك، ويكره أن يضجعها ويحد الشفرة بين يديها لما روي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا أضجع شاة وهو يحد الشفرة وهي تلاحظه فقال عليه الصلاة والسلام: أوددت أن تميتها موتات ألا حددت الشفرة قبل أن تضجعها» .

وروي ‌عن سيدنا عمر رضي الله عنه أنه رأى رجلا وقد أضجع شاة ووضع رجله على صفحة وجهها وهو يحد الشفرة فضربه بالدرة فهرب الرجل وشردت الشاة ولأن البهيمة تعرف الآلة الجارحة كما تعرف المهالك فتتحرز عنها فإذا أحد الشفرة وقد أضجعها يزداد ألمها وهذا كله لا تحرم به الذبيحة؛ لأن النهي عن ذلك ليس لمعنى في المنهي بل لما يلحق الحيوان من زيادة ألم لا حاجة إليه فكان النهي عنه لمعنى في غير المنهي وأنه لا يوجب الفساد كالذبح بسكين مغصوب والاصطياد بقوس مغصوب ونحو ذلك.

6. شرح صحيح البخاري لابن بطال(5/428)
(إن الله كتب الإحسان على كل شيء؛ فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، وليحد أحدكم شفرته، وليرح ذبيحته) وكره أبو هريرة أن تحد الشفرة والشاة تنظر إليها، وروى أن النبى صلى الله عليه وسلم رأى رجلا أضجع شاة، فوضع رجله على عنقها، وهو يحد شفرته فقال له صلى الله عليه وسلم : (ويلك، أردت أن تميتها موتات؟ هلا أحددت شفرتك قبل أن تضجعها) وكان عمر بن الخطاب ينهى أن تذبح الشاة عند الشاة، وكرهه ربيعة أيضًا.

7. مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح(6/2649)
(وليرح ذبيحته) : بضم الياء وكسر الراء أي: ليتركها حتى تستريح وتبرد من قولهم: أراح الرجل إذا رجعت إليه نفسه بعد الإعياء، والاسم الراحة، وهذان الفعلان كالبيان للإحسان في الذبح. قال النووي: الحديث عام في كل قتل من الذبائح والقتل قصاصا أو حدا ونحو ذلك وهذا الحديث من الجوامع اهـ.

وقد قال علماؤنا: وكره السلخ قبل أن تبرد وكل تعذيب بلا فائدة لهذا الحديث، ولما أخرج الحاكم في المستدرك وقال: صحيح على شرط الشيخين، عن ابن عباس رضي الله عنهما: «أن رجلا أضجع شاة يريد أن يذبحها وهو يحد شفرته، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: أتريد أن تميتها موتتين؟ هلا حددت شفرتك قبل أن تضجعها؟» .

8. منارالقاري شرح مختصر صحيح البخاري(5/171)
إذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة، وليحد أحدكم شفرته وليرح ذبيحته ".فقه الحديث: دل هذا الحديث على تحريم تعذيب الحيوان بالتمثيل به وهو حى، أو محاولة الانتصار عليه بخداعه وطعنه بالخناجر والسهام في ظهره استعراضاً لبطولة زائفة في مصارعة كاذبة، كما في مصارعة الثيران التي نرى فيها دعاة الرفق بالحيوان كيف يعذبون الحيوان المسكين، ويتخذون من تعذيبه ملهاة يتسلى بها الجماهير، فإن الإِسلام وهو دين الرحمة قد حرم ذلك أشد التحريم، لما فيه من قسوة ووحشية. الحديث: أخرجه الشيخان والنسائي. والمطابقة: في كون صلى الله عليه وسلم لعن من مثل بالحيوان. وهذا يدل على تحريم التمثيل به.

9. الأحاديث الأربعين النووية مع ما زاد عليها ابن رجب وعليها الشرح الموجز المفيد (1/34)
في هذا الحديث قاعدة نافعة وهي الإحسان في كل شيء يستولى عليه الإنسان سواء أدميا أو حيوانا فالله تعالى قد فرض عليه الإحسان حيث يقدره الله على أي مخلوق ثم إن الرسول صلى الله عليه وسلم أتى بمثلين مثل بني آدم ومثل في الحيوانات لنأخذ من هذين المثلين نبراسا نستضيء به عند كل شيء يحتاج إلى الرفق واللين والإحسان فقال:"إذا قتلتم فأحسنوا القتلة"أي بأن تختاروا ما هو أخف وأسرع إزهاقا للروح ليستريح المقتول:"وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة"بأن تذبحوا بآلة حادة مع الرفق بالحيوان لتستريح الذبيحة بدون تعذيب، {وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ} .

10. فتح القوي المتين في شرح الأربعين وتتمة الخمسين للنووي وابن رجب رحمهما الله (1/65)
عن أبي يعلى شدَّاد بن أوس رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إنَّ الله كتب الإحسانَ على كلِّ شيء، فإذا قتلتُم فأحسنوا القِتْلَة، وإذا ذبحتُم فأحسنوا الذِّبْحة، وليحدَّ أحدُكم شفرَتَه، وليُرح ذبيحتَه" رواه مسلم.

قوله: "إنَّ الله كتب الإحسانَ على كلِّ شيء"، الإحسانُ ضدُّ الإساءة، وكتب بمعنى شرع وأوجب، فالكتابة دينية شرعيَّة، والإحسان فيها يكون عامًّا للإنسان والحيوان.

11. حاشية ابن عابدين(6/296)
(وندب إحداد شفرته قبل الإضجاع، وكره بعده كالجر برجلها إلى المذبح وذبحها من قفاها) إن بقيت حية حتى تقطع العروق وإلا لم تحل لموتها بلا ذكاة (والنخع) بفتح فسكون: بلوغ السكين النخاع، وهو عرق أبيض في جوف عظم الرقبة.

(و) كره كل تعذيب بلا فائدة مثل (قطع الرأس والسلخ قبل أن تبرد) أي تسكن عن الاضطراب وهو تفسير باللازم كما لا يخفى (و) كره (ترك التوجه إلى القبلة) لمخالفته السنة.

(قوله لمخالفته السنة) أي المؤكدة لأنه توارثه الناس فيكره تركه بلا عذر أتقاني.

12. الهداية في شرح بداية المبتدي (4/350)
قال: "ومن بلغ بالسكين النخاع أو قطع الرأس كره له ذلك وتؤكل ذبيحته" وفي بعض النسخ: قطع مكان بلغ. والنخاع عرق أبيض في عظم الرقبة، أما الكراهة فلما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام: "أنه نهى أن تنخع الشاة إذا ذبحت" وتفسيره ما ذكرناه، وقيل معناه: أن يمد رأسه حتى يظهر مذبحه، وقيل أن يكسر عنقه قبل أن يسكن من الاضطراب، وكل ذلك مكروه، وهذا لأن في جميع ذلك وفي قطع الرأس زيادة تعذيب الحيوان بلا فائدة وهو منهي عنه.

والحاصل: أن ما فيه زيادة إيلام لا يحتاج إليه في الذكاة مكروه. ويكره أن يجر ما يريد ذبحه برجله إلى المذبح، وأن تنخع الشاة قبل أن تبرد: يعني تسكن من الاضطراب، وبعده لا ألم فلا يكره النخع والسلخ، إلا أن الكراهة لمعنى زائد وهو زيادة الألم قبل الذبح أو بعده فلا يوجب التحريم فلهذا قال: تؤكل ذبيحته.

13. غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/277)
ضرورة وحاجة ومنفعة وزينة وفضول.
فالضرورة بلوغه حدا إن لم يتناول الممنوع هلك إذا قاربه، وهذا يبيح تناول الحرام.
والحاجة كالجائع الذي لو لم يجد ما يأكله لم يهلك غير أنه يكون في جهد ومشقة وهذا لا يبيح الحرام، ويبيح الفطر في الصوم.

14. الفتاوى الهندية(5/288)
وإذا ذبحها بغير توجه القبلة حلت ولكن يكره، كذا في جواهر الأخلاطي.

15. تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق(5/292)
وكذا لو ذبحها متوجهة لغير القبلة يكره وتؤكل؛ لأن السنة في الذبح أن يستقبل بها القبلة ‌هكذا روي عن ابن عمر رضي الله عنهما أن «النبي صلى الله عليه وسلم استقبل في أضحيته القبلة لما أراد ذبحها»

16. مشكاة المصابيح (5/1271)
وعن ابن المسيب سمع يقول: " إن الله طيب يحب الطيب نظيف يحب النظافة كريم يحب الكرم جواد يحب الجود فنظفوا أراه قال: أفنيتكم ولا تشبهوا باليهود ".

17. صحیح مسلم (3 / 1548)
عن شداد بن أوس، قال: ثنتان حفظتهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إن الله كتب الإحسان علی کل شیء، فإذاقتلتم فأحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، وليحداحدکم شفرته، فليرح ذبيحته»

18. السنن الكبرى للبيهقي (9/471)
عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه رضي الله عنه قال: أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بحد الشفار, وأن توارى عن البهائم, ثم قال: " إذا ذبح أحدكم فليجهز "

19. المستدرك على الصحيحين للحاكم (257/4)
عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما أن رجلا أضحع شاة يريدأن يذبحها وهو يحد شفرته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أتريدأن تميتها موتات هلا حددت شفرتك قبل أن تضجعها» هذاحديث صحيح على شرط البخاري ولم يخرجاه "


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1523/6 المصباح : FDX:005