Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


جانور کو شرعی اصولوں کے مطابق ذبح کروانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟


سوال

ہماری گوشت ایکسپورٹ کمپنی ہے، جس میں ہم یہاں (پاکستان) سے گوشت پیک کر کے سپلائی کرتے ہیں۔گوشت حاصل کرنے سے لے کر ایکسپورٹ کرنےتک کا مرحلہ درج ذیل ہے:

آرڈر کنفرم ہونے کے بعد ہم اپنے جانور فراہم کرنے والے سپلائر سے رابطہ کرتے ہیں اور اس سے معاہدہ طے ہو جانے کے بعدسپلائر کو جانور ہمارے طے کردہ مذبح خانہ (Slaughter house) میں پہنچانا ہوتا ہے، جہاں ہمارا ایک نمائندہ پہلے سے موجودہوتا ہے جو جانوروں کا جائزہ لیتا ہے، جو جانور ہمارے معیار کے موافق ہوتے ہیں انہیں لے لیا جاتا ہے۔

ہمارا معاملہ سپلائر کے ساتھ صرف گوشت کا ہوتا ہے ، یعنی ہم سپلائر سے صرف صافی گوشت خریدتے ہیں جو کہ جانور کے ذبح ہونے ، اس کی صفائی ہونے اور اندونی آلائش کو صاف کر لینے کے بعد وزن کر کے سپلائر سے حاصل کیا جاتا ہے، چنانچہ سپلائرکے ساتھ معاہدے میں صرف گوشت فی کلوگرام کے حساب سے ریٹ طے کیا جاتا ہے، البتہ معاہدہ ہوتے وقت جانور کو اس کی صحت، جسامت اور پر گوشت ہونے کے اعتبار سے چیک کیا جاتا ہے، پسند آجانے کے بعد جانور کو طے کردہ مذبح خانے میں ذبح کیاجاتا ہے اور گوشت کو خرید لیا جاتا، جبکہ جانور کی کھال، آلائش، کلیجی، گردے وغیرہ سپلائر کے ہوتے ہیں ، اور ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

گوشت بننے سے پہلے جانور کا سارا رسک سپلائر پر ہوتا ہے ، ہم پر اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔سپلائر سے معاہدہ ہو جانے کے بعد جانوروں کو ہمارے طے کردہ مذبح خانے میں ذبح کیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں مختلف مذبح خانے ہیں جن سے ہمارا معاہدہ ہے، معاہدے میں مذبح خانے میں جانوروں کے رکھنے، ذبح کرنے ، آلائش کھال وغیرہ کے وقتی طور پر رکھنے، گوشت کو ٹھنڈا کرنے کا کرایہ طے کیا جاتا ہے، جس کی ادائیگی ہمارے ذمہ ہے،قصائی کی اجرت سپلائر ادا کرتا ہے ۔

اس کے بعد مذبح خانے سے گوشت کو مخصوص کپڑوں میں لپیٹ کر گاڑی (جس میں گوشت کو ٹھنڈا رکھنے کا انتظام ہوتا ہے) سے ایئر پورٹ پر پہنچایا جاتا ہے ، جہاں سے طے شدہ ایئر لائن میں گوشت کسٹمر کے بتائے گئے ایئر پورٹ پر پہنچتا ہے اور وہاں سے کسٹمر اپنے انتظامات سے گوشت کو وصول کر لیتا ہے۔

ہماری کمپنی گوشت کو وزن کر کے روانہ کرتی ہے اس کے بعد ایئر لائن سروس میں گوشت روانہ ہوتے وقت گوشت کا وزن
ہوتا ہےجو خود ایئر لائن کمپنی کرتی ہے، تاہم جب گوشت کسٹمر کے پاس پہنچ جاتا ہے تو وہ خود اس کا وزن کرتا ہے اور قیمت کی ادائیگی
اپنےکئے گئے وزن کے مطابق کرتا ہے ایسی صور تحال کو ہمیں مجبورا ًبرداشت کرنا ہوتا ہے۔

کسٹمر سے ادائیگی کا وقت طے ہوتا ہے، البتہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ عقد کے وقت ادائیگی کا وقت متعین طور پر طے نہیں کیا جاتا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کسٹمر چونکہ بااعتماد آدمی ہے اس لئے خود ہی جلد از جلد ادائیگی کر دے گا۔اگر گوشت کسٹمر کے معیار کے مطابق نہ ہو تو وہ اس کو قبول کرنے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔

گوشت کسٹمر کے ملک تک پہنچنے اور کسٹمر کے وصول کرنے تک کا تمام رسک ہم پر ہوتا ہے اور اگر کسی وجہ سے خواہ وہ ایئر لائن کی غفلت ہو یا کوئی اور وجہ ، گوشت خراب ہو جائے تو وہ ہماری ذمہ داری میں ہوتا ہے۔

جواب طلب امور یہ ہیں:
1. مذکورہ طریقہ کار میں شرعی اعتبار سے کوئی خامی تو نہیں؟

2. مذکورہ تمام طریقہ کار میں گوشت کا وزن تین جگہ ہوتا ہے ، جس میں عموماً وزن کے وقت ایک پارٹی موجود ہوتی ہے، چنانچہ :
پہلی دفعہ: اس کا وزن جانور کے ذبح ہو جانے اور گوشت بن جانے کے بعد ہوتا ہے ، اور یہی وقت دراصل سپلائر کے ساتھ حقیقی بیع کا ہوتا ہے اس میں عموماً ہماری کمپنی کا نمائندہ ( یعنی خریدار) موجود ہوتا ہے جبکہ سپلائر ( بائع) عموما ًنہیں ہوتا اور وہ ہمارے نمائندے پر ہی اعتماد کر لیتا ہے، اور اسی کے بتائے ہوئے وزن پر گوشت کی قیمت وصول کر لیتا ہے۔

دوسری دفعہ: وزن گوشت ایکسپورٹ کرتے وقت ایئر پورٹ پر ہوتا ہے اور اس وزن کے مطابق سلاٹرہاؤس والوں کو اور ایئر لائن کمپنی کو ادائیگی کی جاتی ہے، اس وقت صرف ہمارا نما ئندہ موجود ہوتا ہے ، سلاٹرہاؤس کا آدمی نہیں ہو تا۔

تیسری دفعہ: وزن امپورٹر اپنے ایئر پورٹ سے مال وصول کرتےوقت کرواتا ہے، اور اسی وزن کے مطابق وہ ہمیں پیمنٹ کرتا ہے ، گویا کہ اس کے ساتھ ہماری بیع کا حقیقی وقت یہی ہوتا ہے، اس وقت ہمارا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہوتا اور ہم امپورٹر کے کروائے ہوئے وزن پر اعتماد کر کے اس کی قیمت وصول کر لیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ تینوں صورتوں میں عقد اور وزن کا طریقہ کار درست ہے جبکہ کسی موقع پر بھی دوسری پارٹی موجود نہیں ہوتی ؟ خیال رہے کہ یہ صور تحال کثرت سے پیش آتی ہے ، اور ہر موقع پر دوسری پارٹی یا اس کےنمائندے کا موجود ہونا بعض دفعہ ممکن بھی نہیں ہوتا۔

3. پہلی دفعہ جبکہ سپلائر کے لئے وزن کیا جاتا ہے اس وقت چونکہ گوشت ابھی تازہ تازہ بنا ہوتا ہے ، اور گوشت بنتےوقت چونکہ اس کو پانی بھی لگایا جاتا ہے اس لئے وزن کے وقت ہر جانور کے وزن سے ایک کلو کٹوتی کر کے لکھا جاتاہے ، مثلا اگر گوشت کا وزن 50 کلو ہو تو اس کو 49 کلو شمار کیا جاتا ہے، اس طرح گراموں کو بھی شمار نہیں کیا جاتا، یعنی کلو سے کم جو گرام ہوں ان کو شمار میں نہیں لایا جاتا خواہ وہ 900 گرام ہوں، اور یہ سارا طریقہ کار ہماری اورسپلائر (بائع) کی رضامندی سے ہوتا ہے، کیا وزن کا یہ طریقہ کار درست ہے ؟

4. ہمارا معاملہ سپلائر کے ساتھ صرف گوشت کا ہوتا ہے، لیکن جانور ہمارے معین کردہ سلاٹر ہاؤس میں ذبح ہوتا ہے ، توکیا ذبح کے عمل کی شریعت کے مطابق ہونے کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے یا سپلائر پر ؟ بعض دفعہ قصائی حضرات ذبح کے وقت بعض نا جائز یا مکروہ اُمور کا ارتکاب کرتے ہیں تو کیا ان کی نگرانی کرنا اور سمجھانا یا باز پرس کرناہماری ذمہ داری ہے ؟ یاد رہے کہ قصائی ہماری مرضی سے منتخب کئے گئے ہوتے ہیں جبکہ ان کی اُجرت سپلائر کےذمہ ہوتی ہے۔

جلد از جلد جوابات عنایت فرما کر کاروبار کو شریعت کے مطابق کرنے میں ہماری مدد فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا

جواب

(1)۔۔۔مذکورہ بالا طریقہ کار شرعی اعتبار سے درست ہے، البتہ اگر گا ہک سے معاملہ ادھار کا کیا جائےتو ادھار کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ادھار میں ادائیگی کی مدت مجہول چھوڑ نا جائز نہیں۔ ہاں اگر معاملہ نقد ہےتو مدت ذکر کرنے کی ضرورت نہیں، اگر چہ عملی طور پر ادا ئیگی کچھ دنوں کے بعد ہی ہو۔

(2)۔۔۔اس صورت میں چونکہ خریدار وزن کرتا ہے ، اور اگلا خریدار پھر دوبارہ وزن کرتا ہے تو شرعاًاتنا کافی ہے، بائع کا موجود ہونا ضروری نہیں۔(1)

(3)۔۔۔اگر باہمی رضامندی سے ایسا کیا جاتاہو تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں فقہی اعتبار سے یہ زیادت فی البیع میں داخل ہے۔

(4)۔۔۔یہ عمل چونکہ سپلائر کیلئے ہورہا ہے اس لئے سارے عمل کی ذمہ داری سپلائر کی ہے۔ البتہ اگر قصائی غیر شرعی اُمور کا ارتکاب کر رہے ہیں، تو غیر شرعی اُمور کا روکنا نہی عن المنکر میں داخل ہے اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہر مسلمان پر عائد ہوتا ہے، خصوصاً ایسا شخص جو منکر کو روکنے کی طاقت رکھتا ہو اور کوئی مفسدہ بھی لازم نہ آتا ہو تو اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ تغییرِ منکر کرے۔ اس صورت میں چونکہ قصائی آپ لوگوں کے مقرر کردہ ہوتے ہیں ،اگروہ غیر شرعی اُمور کا ارتکاب کریں تو آپ لوگ ان کو تبدیل بھی کر سکتے ہیں اس لئے آپ لوگوں کا فریضہ ہے کہ ان کو پابند بنائیں اور معاہدہ کرتے وقت ہی یہ شرط لگا ئیں کہ کوئی غیر شرعی اُمورکا ارتکاب نہیں کیا جائیگا۔ واللہ اعلم

(1)
الفتاوى البزازية على هامش الهندية (3/ 367)
وأفتى الإمام الحلواني بأن التعاطى من أحد الجانبين لا يكون بيعاً مطلقاً مع بيان الثمن بل لابد في المختار من الجانبين والكرماني على أن تسليم المبيع على وجه البيع والتمليك مع بيان الثمن بيع وتأويله إذا قبض المبيع لا الثمن أما إذا دفع الثمن ولم يقبض المبيع لا يجوز لأن المبيع أصل إلا إذا كان بيع مقايضة.

بدائع الصنائع (5/245)
ولو كاله البائع أو وزنه بحضرة المشترى كان ذلك كافيا ولا يحتاج إلى إعادةالكيل لأن المقصود يحصل بكيله مرة واحدة بحضرة المشترى وما روى عن رسول الله أنه نهى عن بيع الطعام حتى يجرى فيه صاعان صاع البائع وصاع المشترى محمول على موضع مخصوص وهو ما إذا اشترى مكيلا مكايلة فاكتاله ثم باعه من غيره مكايلة لم يجز لهذا المشترى التصرف فيه حتى يكيله وإن كان هو حاضرا عنداکتبال بالعه فلا يكتفى بذلك .

البحر الرائق (6/128)
وإنما ذكر المؤلف كيل المشترى وحده دون كيل البائع مع أن الحديث المترط الصاعين لأن صاع البائع ليس بلازم لكل بيع لأن البائع إذا ملكه بالإرث أو المزارعةأو كان شراؤه مجازفة أو استقرض حنطة على أنها كر ثم باعها فالحاجة إلى كيل المشترى.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1524/42 المصباح : FDX:006