Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کا سفارش کی بنیاد پر کم صلاحیت والے شخص کو ملازمت پر رکھنا


سوال

میں ایک ادارے کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوں، اور مجھے اکثر و بیشتر لوگوں کوبھرتی (hire) کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں:

1. اگر میرے سامنے دو آدمی ایک جیسے آجائیں جو صلاحیت ، علم ، سمجھ وغیره میں بالکل ایک درجے کے ہوں، لیکن ان میں سے ایک بندہ میرا جاننے والا ہو یا اس کی کسی نے سفارش کررکھی ہو تو میں اس بنیاد پر اس شخص کو نوکری دے کر دوسرے سے معذرت کر لیتا ہوں، کیااس طرح کرنا درست ہے؟

2. دوسری صورت یہ ہوتی ہے دو آدمی میرے سامنے آئے دونوں کام کر سکتے ہیں لیکن ان میں صلاحیت یا اہلیت کے اعتبار سے بہت معمولی فرق ہے۔ اب ان میں سے جو ذرا کم درجے کاہے اس کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں یا اس کی کسی نے سفارش کر رکھی ہے تو میں محض اس وجہ سے اسی نوکری دے دیتا ہوں اور دوسرے سے معذرت کر لیتا ہوں .... کیا میں اس طرح کرسکتا ہوں؟ کیا اس طرح کرنا خیانت کے زمرے میں تو نہیں آتا؟

3. ایک سوال یہ ہے کہ ویسے تو کسی شخص کو کوئی عہدہ دیتے وقت اس عہدے کی مطابق اس کی صلاحیت کو جانچا جاتا ہے لیکن بعض اوقات ادارے کے مالکان اپنے ذاتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی ایسے آدمی کو کوئی بڑا عہدہ دے دیتے ہیں جس کا وہ اہل نہیں ہوتا؟ کیا اس طرح کرنا درست ہے؟ کیا مالکان کو ہر قسم کے اختیارات ہوتے ہیں؟

4. ایک سوال یہ ہے کہ بعض اوقات جب کوئی جگہ خالی ہوتی ہے اور میں انٹرویو کیلئے لوگوں کوبلاتاہوں تو مالکان کی طرف سے کسی بندے کو بھیجا جاتا ہے کہ اسے رکھ لیا جائے، حالانکہ وہ اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے وہ ذمہ داری سونپی جائے۔ تو ایسی صورت میں ایک نا اہل شخص کو کوئی عہدہ دینے میں ، میں تو ذمہ دار نہیں ہونگا؟

5. ایک صورت یہ پیش آتی ہے کہ بعض اوقات مجھ سے سینئر لیول کے افسران (مالکان کے علاوہ)کی طرف سے حکم یا سفارش آتی ہے کہ فلاں بندے کو ترجیح دی جائے۔ اب اگر امانتداری کی طرف دیکھا جائے تو وہ شخص مستحق نہیں بنتا لیکن اگر اپنے افسران کی طرف دیکھا جائے توان کی بات ٹالنا ممکن نہیں ہوتا، ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟ نا اہل شخص کو نوکری پررکھنے کا گناہ مجھ پر تو نہیں آئے گا؟

6. اسی طرح ایک مسئلہ یہ بھی پیش آتا ہے کہ بعض جگہ سرکاری ادارے رشوت مانگتے ہیں، میں نہیں دینا چاہتا اور یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ان کے خلاف کھڑا ہوا جائے اور عدالت تک بھی جاناپڑے تو جایا جائے تو ہم رشوت سے بچ سکتے ہیں، لیکن میرے افسران یا مالکان کہتے ہیں کہ رشوت دے کر جان چھڑا لو، کون ان کی پنچایتیں بھگتتا رہے گا؟ ایسی صورت میں کیا مجھےرشوت دینے کا گناہ ہوگا؟ جبکہ میں تو مالکان یا افسران کے کہنے پر دے رہا ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل نہ کی تو نوکری چھوڑنی پڑے گی۔

جواب

(1)۔۔۔اگر صلاحیت کے اعتبار سے اور متعلقہ نوکری کی اہلیت کے اعتبار سے دونوں آدمی بر ابر ہیں تو اگرآپ اپنے جاننے والے آدمی کو یا جس کی کسی نے سفارش کر ر کھی ہواس پر اعتماد کی وجہ سے نوکری دیں تو مذ کورہ صورت جائز ہے۔

(2) ۔۔۔ اگر اہلیت میں فرق اس قدر معمولی ہے (جیسا کہ آپ کی تحریر سے بہت معمولی لگ رہا ہے) کہ جس کام کے لئے رکھا جارہا ہے اس کام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور یہ فرق قابل ِنظر انداز ہے تو جاننے والے یاسفارش والے آدمی کو اعتماد اور بھروسے کی بناء پر نوکری دینا جائز ہے۔

(3) ۔۔۔اگر مذکورہ صورت میں مالکان کو اس شخص کے بارے میں پوری صورتِ حال معلوم ہو اور اس کےباوجود وہ اپنے اختیار سے کسی شخص کو کوئی عہدہ دیتے ہیں تو ان کو اختیار ہے اور اس میں آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی البتہ آپ مالکان کو حقیقت کے مطابق مشورہ دے سکتے ہیں کہ یہ شخص اس عہدے کااہل نہیں ہے اس سے پریشانی پیش آسکتی ہے۔

(4) ۔۔۔ مذکورہ صورت میں آپ مالکان کو حقیقی صورتِ حال بتادیں اگر پھر بھی وہ اسی فرد کو بر قرار رکھنےپر اصرار کریں تو مالکان کے علم اور مرضی کے مطابق آپ کسی نا اہل کو رکھ رہے ہیں تو آپ پر اس کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔

(5)۔۔۔ اگر ادارے کے مالکان کی طرف سے سینئر افسران کو اس کا اختیار ہو اور ان کا حکم ماننا آپ پر لازم ہو ،یامذکورہ معاملہ ادارے کے مالکان کی اجازت یا ان کے علم میں لاتے ہوئے ہو جب تو نا اہل بندے کو رکھنے کی وجہ سے آپ کسی خیانت کے مرتکب نہیں ہونگے ، لیکن اگر سینئر افسران کو اس طرح حکم دینے کا اختیار ہی نہ ہو یا ان کا حکم ماننا آپ پر لازم نہ ہو اور نہ ہی ادارے کے مالکان کی طرف سے اس کی اجازت ہو تو اس صورت میں آپ کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں۔

(6)۔۔۔ واضح رہے کہ رشوت لینا اور دینا اسلام میں سخت نا پسندیدہ اور حرام فعل ہے، اس سے بچنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے، تاہم اگر کہیں کسی پر ظلم ہورہا ہو یاکسی کا حق ضائع ہورہا ہو تو اپنے حق کی وصولیابی اور ظلم سے بچنے کے لئے رشوت دینی پڑے تو دینے والے پر اس کا گناہ نہیں ہو گا، رشوت لینےوالے کے لئے بہر صورت رشوت لینا نا جائز ہے اور اگر اپنا حق ضائع نہ ہورہا ہو بلکہ کسی فائدے کے حصول کے لئے رشوت دینی پڑے تو آپ کے لئے افسران کے کہنے پر بھی رشوت دینا جائز نہیں ۔(تبویب بتصرف :59/201)

المستدرك على الصحيحين للحاكم (4 / 115)
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال : لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه واقره الذهبي ورواه ابوداود والترمذي وابن ما جہ و ابن حبان واحمدو ابن أبي شيبة.

حاشية ابن عابدین (5 / 362)
الرابع ما يدفع تدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للمدافع حرام على الأخذ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب اھ ما في الفتح ملخص وفي القنية الرخوة يجب ردها ولا تملك.

وفيه ايضا (5 / 72)
كما لو اضطر إلى دفع الرشوة لإحياء حقه جاز له الدفع وحرم على القابض.

البحر الرائق (441/6)
الثاني إذا دفع الرشوة خوفا على نفسه أو ماله فهو حرام على الأحد غيرحرام على الدافع وكنا إذا طمع في ماله فرشاه ببعض المال.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 423)
لا بأس بالرشوة إذا خاف على دينه والنبي - عليه الصلاة والسلام – كان يعطي الشعراء ولمن يخاف لسانه وكفى بسهم المؤلفة من الصدقات دليلا على أمثاله.

(قوله إذا خاف على دينه )عبارة التى لمن يخاف، وفيه أيضا دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوةيعني في حق الدافع اه. و(قوله كان يعطي الشعراء) فقد روى الخطابي في الغريب عن عكرمة مرسلا قال: أتى شاعر النبي - صلى الله عليه وسلم -فقال يا بلال اقطع لسانه عني فأعطاه أربعين در هما.

الفتاوى الهندية (3 / 331)
ونوع منها أن يهدي الرجل إلى رجل مالا يسبب أن ذلك الرجل قد خوفه فيهدي إليه مالا ليدفع الخوف عن نفسه، أو يهدي إلى السلطان مالا ليدفع الظلم عن نفسه، أو عن ماله وهذا نوع لا يحل الأخذ لأحد، وإذا أخذ يدخل تحت الوعيد المذكور في هذا الباب، وهل نحل للمعطي الإعطاء.؟
عامة للمشايخ على أنه يحلا لأنه يجعل ماله وقاية لنفسه، أو يجعل بعض ماله وقاية للباقي.

الفتاوى الهندية - (403/4)
إذا دفع الرشوة لدفع الجور عن نفسه أو أحد من أهل بيته لم يأثم.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1886/27 المصباح : SF:025