ہمیں اپنی کمپنی میں اپنے ور کر ز کے متعلق چند مسائل کے جواب درکار ہیں:
ہمارے یہاں تین قسم کے لوگ ملازم ہیں :
1) پر میننٹ (مستقل)
2) ٹیمپریری (عارضی)
3) ڈیلی و یجز (روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے)
حکومت کی طرف سے قانون ہے کہ جس ملازم نے ملازمت کا ایک خاص دورانیہ مثلا تین ماہ مکمل کر لئے ہوں اس کو مستقل کرناضروری ہے اور مستقل ملازم کوبعض ایسے فوائد حاصل ہوتے ہیں جو عارضی ملازم کو حاصل نہیں ہوتے مثلا گر یجویٹی اور بونس ملناوغیرہ۔
اب صور تحال یہ ہے کہ ہمارے یہاں باوجود اس قانون کا علم ہونے کے ملازم کو اس مخصوص دورانیہ کے بعد بھی مستقل نہیں کیا جاتا بلکہ عارضی بنیادوں پرہی کام لیا جاتا ہے اس صور تحال میں درج ذیل اور جواب طلب ہیں:
(1)۔۔۔ گورنمنٹ کے اس قانون کا کیا حکم ہے اور ہمارے لیے اس قانون پر عمل کرنا کس حد تک لازم ہے، جبکہ ملازم ہماری شرائط کےمطابق ملازمت کرنے پرراضی بھی ہے۔
(2)۔۔۔اب تک تین ملازمین کو ان کے مخصوص دورانیہ کے گزرنے کے باوجود مستقل نہیں کیا گیا، آیا ایسے ملازمین کو گزشتہ تمام عرصے کی مستقل ملازمین والی مراعات دینا ضروری ہو نگی۔ جبکہ معاہدہ میں ایسی کوئی چیز طے نہیں ہوئی تھی۔
(3)۔۔۔بعض ادارے گور نمنٹ کے اس قانون سے بچنے کے لئے یہ حیلہ اختیار کرتے ہیں کہ ایسے تمام عارضی ملازمین کو گورنمنٹ کے متعین کردہ دورا نیہ کےپورا ہونے سے ایک دودن پہلے فارغ کر دیتے ہیں اور پھر جو ملاز مین دوبارہ ملازمت کے خواہشمند ہوں ان سے درخواستیں وصول کرکے نیا ایگریمنٹ کرتےمیں اور اسی طرح ہر بار مذکورہ دورانیہ پو را ہونے سے پہلے یہ عمل دہراتے ہیں شرعاً اس حیلہ کا کیا حکم ہے؟
(1)۔۔۔۔ گورنمنٹ کا یہ قانون مصالح عامہ یعنی عوام الناس کے مفاد کے لیے ہے اس لیے اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ حکومت کے عوامی مفاد میں جاری ہونےوالے قوانین کو ماننا ضرور ی ہوتا ہے چاہے فریقین باہم اس کے نہ ماننے پر راضی بھی ہوں۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو کمپنی مالکان گنہگار ہوں گے۔اگر چہ معاہدہ میں ایسی کوئی چیز طے نہیں تھی پھر بھی یہ قانون اس معاہدہ پر لاگو ہو گیا اس لیے کہ اس کا تعلق اس طرح کے تمام عقود سے بر اہِ راست ہےاب اگر کوئی عقد میں ذکر کرے یانہ کرے، دونوں صورتوں میں اس کی پابندی لازم ہے۔ اب تک کے گذشتہ تمام عرصہ کی مراعات بھی دینا لا ز م ہے تا کہ گناہ سے بچ سکے۔
(2 )۔۔۔حکومت نے یہ قوانین ملاز مین کے حقوق کے لیے بنائے ہیں اس لیےما لکان کو چاہیے کہ وہ بھی ملازمین کا بھر پور خیال رکھیں۔ ان کو کسی ہنر کی تربیت دے کر یا صدقات، خیرات اور ز کو ۃ کی وغیرہ سے ان کی مالی معاونت کر کے ان کی مالی مشکلات میں کمی کی دیانتدارانہ کو شش کرتے رہنا چا ہیے۔تاہم یہ حیلہ اختیار کرنے سے چو نکہ کمپنی مالکان قانونی لحاظ سے حکومتی احکام کی خلاف ورزی میں نہیں آتے اس لیے اس کی گنجائش ہے۔
حاشية ابن عابدين( 5 / 167)
(قوله يعزر) لأن طاعة أمر السلطان بمباح واجبة.
حاشية ابن عابدين (2 / 185)
أن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجبة.
حاشية ابن عابدين (2 / 337)
تصرف الإمام منوط بالمصلحة من الأشباه معزيا للبزازية فتنبه. اهـ.
تکملہ فتح الملهم (323/3)
المسلم يجب عليہ ان يطيع امره في الأمور المباحة فان امر الامير بفعل صباح وجدت مباشرة وإن أنھى عن امر مباح حرم ارتکابہ۔۔۔۔۔۔ من هذا صرح الفقهاء بأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجبة۔۔۔۔. هذه الطاعة كما انها مشروطة يكون أمر الحاكم غير معصية فانها مشروطة ايضا يكون الأمر صادرا عن مسلحة لاعن هوى او ظلم لان الحاكم لايطاع لذاته و أنه يطلع من حيث انه منول لمصالح العامة اھـ
احكام القران للتهانوى ( 291/2)
وهذا الحكم فى وجوب طاعة الأمير يختص بما اذا لم يخالف امر با لشرع يدل علیہ سیاق الآية فان الله تعالى امرالناس بطاعة أولى الأمر بعد ما أمرهم بالعدل في الحكم تنبيها على ان طاعتهم وجبت ماداموا على العمل اھ.
بحوث فی قضایا فقهیة معاصرة (166/1):
لان كل من يسكن دولة، فأن يلتزم قولا او عملا ، بانه يتبع قوانينها و حينئذ يجب عليہ اتباع احکامها ما دامت تلك القوانين لا تجبرها على معصية دينيه.