Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


وعدہ بیع کرنےکے بعد مبیع میں نقصان ہونے کی صورت میں ذمہ دار کون ہوگا؟


سوال

1. ہم گوشت ایکسپورٹ کا کام کرتے ہیں، جس کے لئے ہم یہاں بعض سپلائرز سے گوشت خریدتے ہیں ، اس کے خریدنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے ، وہ ہمارے آرڈر دینے پر اپنے ذرائع سے جانور خریدتا ہے اور ہمیں جانور لا کر دکھاتا ہے ، ہمیں اگر جانور پسند آجائے تو وہ اس جانور کو ذبح کروا کر اس کا گوشت ہمیں فروخت کر دیتا ہے۔

بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اس کو بتاتے ہیں کہ یہ جانور کل ذبح ہونا ہے اس لئے وہ آج شام تک جانور مہیا کرے ، اس وقت تک جانور کی خوراک وغیرہ اور مذبح خانہ (جو ایک تیسرے آدمی کا ہوتا ہے) میں کھڑا کرنے کے اخراجات سپلائر کے ہی ذمہ ہوتےہیں ، اب بعض دفعہ ہماری وجہ سے مثلاً ہمارا آرڈر کینسل یا مؤخر ہو گیا تو اس وجہ سے ایک دو دن یا زیادہ دن جانور ذبح کرنے میں تاخیرہو جاتی ہے ، جس کی وجہ سے سپلائر کو مزید اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں سوال یہ ہے کہ :

(الف) اس تاخیر کی وجہ سے جانور پر آنےوالے اخراجات کس کے ذمہ ہونگے ؟

(ب) نیز اگر اس تاخیر کے دوران جانور مر جائے تو جانور کے نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا؟

اگر یہ زائد اخراجات ہمارے ذمہ ہیں تو کیا یہ ہم اس کسٹمر سے وصول کر سکتے ہیں، جس نے ہم سے جانور خریدنے کا وعدہ کیا تھا جس کی وجہ سے ہم نے بھی سپلائر کو آرڈر دے دیا لیکن پھر کسی وجہ سے اس کسٹمر نے یہ وعدہ کینسل کر دیا اور اس کی وجہ سے ہمیں بھی جانورخریدنے میں تاخیر کرنا پڑی۔

2. بعض سپلائرز کو ہم ایڈوانس رقم بھی دیتے ہیں اس لئے کہ بعض دفعہ ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو ہم بطور قرض دیتے ہیں کہ ابھی آپ ہم سےخرید آپ ہمیں بیچیں اور بعد میں اس رقم کو ایڈجسٹ کیا جائے گا لیکن اس شرط پر کہ و ہ جو جانور خریدے گا اس کا گوشت ہمیں ہی فروخت کرے گا۔

3. ہمارے پاس بعض دفعہ جانوروں کے خون کے سپلائی کرنے کا آرڈر آتا ہے، کیا جانوروں کے خون کی خرید و فروخت جائز ہے؟

واضح رہے کہ یہ خون بعض دفعہ مختلف کیمیکل ملا کر فروخت کیا جاتا ہے اور بعض دفعہ کیمیکل ملائے بغیر ، جبکہ یہ خون زمین کی کھاد کے طورپر بھی استعمال ہوتا ہے اور اسی طرح مرغیوں کی فیڈ بنانے والے بھی اس کی خریداری کرتے ہیں۔

جواب

(1)۔۔۔(الف) چونکہ مسئولہ صورت میں بیع (خریدو فروخت) کا معاملہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے بلکہ خریدنے کا صرف وعدہ کیا ہے لہذا اس دور ان جانور پر آنے والے مزید اخراجات سپلائر کے ذمہ لازم ہونگے، تاہم سپلائر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ پہلے جس قیمت پر بیچنے کا وعدہ ہوا تھا اب تاخیر کی وجہ سے مزیدآنےوالے اخراجات کو جانور کی قیمت میں ملا کر زائد قیمت میں فروخت کر سکتا ہے۔

(ب) چونکہ مسئولہ صورت میں جانور ابھی سپلائر ہی کی ملکیت میں ہے اس لئے اگر تاخیر کے دوران جانور مر جائے تو شر عا ًسپلائر ہی اس کا ذمہ دار ہو گا۔

(2) ۔۔۔ مسئولہ صورت میں سپلائرز کو جو ایڈوانس رقم دی جاتی ہے یہ قرض ہے اور پھر ساتھ میں یہ شرط لگانا کہ جانور خرید کر ہمیں ہی فروخت کریں گے یہ درست نہیں ہے، سپلائرز کے ذمہ اس شرط کےمطابق عمل کرناضروری نہیں ہے، تاہم قرض دینے کے بعداگر گوشت بازاری قیمت کے مطابق ہی خریدتے ہیں اور قرض کی وجہ سے اس میں کمی نہیں کرتے تو خرید و فروخت کا معاملہ فی نفسہ درست ہے۔

(3) ۔۔۔ ذبح کرتے وقت جانوروں کے جسم سے جو خون نکلتا ہے وہ نجس ہے، ایسے خالص خون کی خرید و فروخت باطل اور حرام ہے اس سے بچنا لازم ہے، (ماخذہ التبویب 51/1439) البتہ اگر ایسے خون میں زیادہ مقدار میں کوئی حلال اور پاک چیزملالی جائے اور پاک چیز کی مقدار غالب ہو تو اس مرکب کو کسی جائز خارجی استعمال کے لئے بیچنے کی گنجائش ہے۔

(1،2)
الدر المختار مع رد المحتار (5 / 166)
وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه.

الفتاوى الهندية (3 / 202)
قال محمد رحمه الله تعالى في كتاب الصرف إن أبا حنيفة رحمه الله تعالى كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعةمشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به.. ولا بأس بهدية من عليه القرض والأفضل أن يتورع من قبول الهدية إذا علم أنه يعطيه لأجل القرض وإن علم أنه يعطيه لا لأجل القرض بل لقرابة أو صداقة بينهما .لا يتورع عنه .. كذا في مخيط السرخسي ..قال محمد رحمه الله تعالى لا بأس بأن يجيب دعوة من كان عليه دين قال شيخ الإسلام هذا جواب الحكم فأماالأفضل فأن يتورع عن الإجابة إذا علم أنه لأجل الدين أو أشكل عليه الحال
قال شمس الأئمة ما ذكر محمد رحمه الله تعالى محمول على ما إذا كان يدعوه قبل الإقراض أما إذا كان لا يدعوه أو كان يدعوه قبله في كل عشرين يوماوبعد الإقراض جعل يدعوه في كل عشرة أيام أو زاد في الباجات فإنه لا يحل ويكون خبيثا وإذا رجح في بدل القرض ولم يكن الرجحان مشروطا في القرض فلا بأس به كذا في المحيط.

(3)
فقه البيوع (1 /311)
و قد روج في عصرنا تداول الدم المسفوح وقد صار اغلي مايتمول به كماقال السائل ومصانع اللون يستعملونه في اللون وغير ذالك من الكيماويات فاذا خلط شيئ طاهر بالدم وكان الشيئ الطاهر غالباً يمكن ان يفتي بجواز بيع ذاك المركب اعتباراً بالسرقين والعذرة المخلوطة بالتراب وغيره، اذاكان لغرض الاستعمال الخارجي مثل التلوين وغيره وقال شيخنا احفظه الله تعالي في بحث بيع الدم واما الحنفية فيجوز عندهم بيع المتنجسات والانتفاع بما في غير الاكل ويشتمل الاكل اطعام الحيوانات كما مر عن الهنديه والقنية .....الخ.

فقه البيوع ( 1/308)
وقد اتفق الفقهاء علي نجاسة الدم وعدم جواز بيعه ... وكذالك يستعمل الدم في عصرنا لتغذية الدجاج وقد شاع استعماله في مزارع الدواجن وعموم النصوص في نجاسة الدم يقتضي عدم جواز ذالك ومن ثم عدم جواز بيعه لهذا الغرض. ....والله سبحانه و تعالیٰ اعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2050/40 المصباح : FDX:021
14 0