غلہ منڈی میں جس آڑھتی کے پاس زمیندار اپنا مال لاتا ہے تو وہ اس کے مال کی بولی لگاتا ہے۔ سب آڑھتی جمع ہوجاتے ہیں۔ اب یہاں دو صورتیں پیش آتی ہیں:
1. بولی کے لیے جمع ہونے والے حاضرین میں سے کوئی خرید لیتا ہے۔
2. خود بولی لگانے والا آڑھتی خرید لیتا ہے۔
پہلی صورت میں بولی لگانے والا آڑھتی کل قیمت کا %5 بطور کمیشن زمیندار سے وصول کرتا ہے۔ اس صورت کےبارے میں مسئلہ دریافت کر لیا گیا ہے۔
دوسری صورت میں جب کہ بولی لگانے والا آڑھتی خود خریدتا ہے، اس میں پھر دوصور تیں پیش آتی ہیں:
1) بولی لگانے والا آڑھتی بولی لگانے کے ساتھ ساتھ بولتا بھی رہے گا ۔ مثلاً حاضرین میں سے ایک نے2800 روپے من کی بولی دی۔ دوسرے نے 2850 کی دی۔ اس دوران بولی لگانے والا آڑھتی خود بھی بولی بولتا ہے۔ مثلا وہ پہلے دو کے بعد 2900 روپے کی بولی بول دے گا۔ پھر کوئی اور اس سے زیادہ کی بولی لگا دےگا۔ اب اگر بولی لگانے والا آڑھتی خریدنے کا ارادہ کر لے اور وہ سب سے زیادہ بولی بول دے تو وہ مال خریدلیتا ہے اور پھر %8 کمیشن کے نام سے کاٹ کر باقی پیسے زمیندار کو دے دیتا ہے۔
2) دوسری صورت یہ پیش آتی ہے کہ بولی میں مال کا صحیح ریٹ نہیں لگا۔ جب منڈی کا کوئی آڑھتی اسےخریدنے کے لیے تیار نہیں ہوا تو بولی ختم ہو جاتی ہے۔ اب بولی لگانے والا آڑھتی زمیندار سے معاملہ کر کے اس کا مال خرید لیتا ہے یا زمیندار مال رکھوا دیتا ہے اور دوبارہ بولی کا انتظار کرتا ہے البتہ ایسا کم ہوتا ہے۔ اب یہاں دو مقامات پر اشکال ہو رہا ہے، جس کا حل مطلوب ہے۔
1. بولی کے دوران بولی لگانے والے آڑھتی کا خود خرید نا درست نہیں کیوں کہ اس وقت وہ زمیندار کی طرف سے وکیل بالبیع ہے اور وکیل بالبیع کو دوران وکالت خود مال خریدنے کا حق نہیں اگر چہ موکل اجازت دے ورنہ ایک ہی شخص کا مطالِب اور مطالَب بننا لازم آئے گا۔ كما وقع فی کتب الفقہ۔
2. بولی لگانے والا آڑھتی جب خود خریدتا ہے تو %5 کمیشن کے نام پر کاٹتا ہے۔ مثلا: 100 روپے کے 95روپے زمیندار کو ملیں گے۔ اس %5 کی کٹوتی کو کیا نام دیا جائے؟
(1) کمیشن (2) حطِّ ثمن (3) تخفیف في الثمن
ابتداءکمیشن نہیں کہہ سکتے کیونکہ آڑھتی خود خریدار ہے۔ حطِّ ثمن پر محمول کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ وہ رضا مندی پر موقوف ہوتا ہے جب کہ یہاں جانبین اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ البتہ ابتداء تخفیف فی الثمن پرمحمول کیا جا سکتا ہے کہ یہ مراد لیاجائے کہ ان 95 روپے پر ہی واقع ہوئی ہے۔ البتہ اس میں اشکال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے کہ 100 روپے ثمن طے کی جائے اور اس سے مراد 95 روپے لیے جائیں۔ یہ صورت بازار میں عام ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی کمپنی سیل(Sale)لگاتی ہے تو لکھا ہوتا ہے کہ %20 ڈسکاؤنٹ۔ اب اصل بل تو پوری قیمت پر بنتا ہے لیکن بل کے آخر میں مذکورہ ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔
حطِّ ثمن پر محمول کرنا اس لیے مشکل ہے کہ زمیندار یہ سمجھتا ہے کہ بیع تو 100 پر ہوئی 5 روپے کمیشن کی کٹوتی ہے۔ اگر اس کو معلوم ہو کہ یہ کمیشن نہیں بلکہ حطِّ ثمن ہے (جو کہ بہر حال زمین دار کی اجازت اور رضا مندی پر موقوف ہے) تو عام طور پر وہ اس پر راضی نہ ہوگا بلکہ 100 کا ہی تقاضا کرے گا۔ نیز اب آڑھتی اس بیع سے (جو 100 پرہوئی) انکار بھی نہیں کر سکتا کیونکہ بیع لازم ہو چکی۔
مذکورہ صورت میں آڑھتی زمیندار کی طرف سے وکیل بالبیع ہے اور چونکہ حقیقتا ًعاقد بھی وہی (وکیل) ہے اس لیے عقد بیع کے تمام حقوق بھی اسی وکیل (آڑھتی) کی طرف راجع ہوں گے ، لہذا اس وکیل (آڑھتی) کے لیے اس مبیع کوخود خرید لینا جائز نہیں، اگرچہ مؤکل (زمیندار) نے وکیل کو اس کی اجازت بھی دی ہو کیونکہ اس صورت میں اس وکیل کامطالِب اور مطالَب بننا لا زم آئے گا اور نزاع کی صورت میں یہی مخاصِم اور مخاصَم ہو گا اور فقہاء کرام رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ ایک ہی شخص عقد کے دونوں طرفوں کا مالک نہیں بن سکتا۔ (دیکھیے عبارت نمبر 1تا7 )
اور اگر اس کے باوجود بھی وکیل بالبیع اس مبیع کو خود خرید لے تو اس صورت میں یہ بیع فاسد ہو گی اور بیع فاسد کااصل حکم یہ ہے کہ اگر مبیع موجود ہے اور علی حالہ قائم ہے تو اس بیع کو صحیح کرنا اور مبیع کو اصل مالک کی طرف لوٹانا ضروری ہے لیکن اگر مبیع کے ہلاک ہونے کی وجہ سے یا کسی اور بناء پر بیع کو فسخ کرنا متعذر ہو تو اگر مبیع مثلی ہے تو اس کا مثل اور اگر قیمی ہے تو جس دن مبیع پر قبضہ کیا ہے اس دن کی قیمت اس وکیل پر لازم ہو گی اور اس قیمت میں کمیشن، حطِّ ثمن یا تخفیف فی الثمن ابتداءً کے نام کسی قسم کی کٹوتی نہیں ہو گی۔ (دیکھیے عبارت نمبر 8 تا 11)
البتہ اگر وکیل (آڑھتی ) اس چیز کو خریدنا چاہتا ہے تو اس میں دو صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں:
1. پہلی صورت وہ ہے جس کو "ردالمحتار “ اور ”شرح المجلة للاتسی" میں بیان کیا گیا ہے کہ پہلے یہ وکیل (آڑھتی)کسی اجنبی کو یہ مبیع فروخت کر دے اس کے بعد اس مبیع کو اجنبی سے خرید لے۔ (دیکھیے عبارت نمبر 12اور 14)
2. دوسری صورت یہ اختیار کی جاسکتی ہے کہ یہاں دو الگ الگ عقد کیے جائیں :
(1) وکالت مؤقته (2) بیع مطلق
اس کی تفصیل یہ ہے کہ زمیندار ، آڑھتی کو یوں کہے کہ تم میرا یہ مال فروخت کرو اور اس کی فروختگی پر تم مثلاه فیصد کمیشن دوں گا لیکن تمہیں اس مال کی فروختگی کا حق صرف اس بولی کے اختتام تک ہے، لہذا بولی کے اختتام تک اگر کسی ایک ریٹ پر اتفاق ہو جائے تو ریٹ لگانے والے کو وہ مال فروخت کر دیا جائے اور آڑھتی کو اس کا کمیشن مل جائےگا اور اگر کسی ریٹ پر اتفاق نہیں ہوتا تو بولی ختم ہو جائے گی اور وکالت کی مدت بھی پوری ہو جائے گی اور چونکہ وہ مال فروخت نہیں ہوا اس لیے اس کو کمیشن نہیں ملے گا اور آڑھتی کی حیثیت ایک عام آدمی کی ہو جائے گی ، اب اگر آڑھتی اس مال کو خرید نا چاہ رہا ہے تو ز میندار سے عقد بیع کرلے اور اس کا مال خرید لے۔ (دیکھیے عبارت نمبر 13)
البتہ اس دوسری صورت میں دو باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
1. یہ کہ جس وقت بولی لگائی جارہی ہےآڑھتی ساتھ ساتھ خود بولی نہ لگائے، کیونکہ وکیل بالبیع ہونے کی بناء پر خریدنے کی نیت سے بولی لگانا درست نہیں اورخریدنے کی نیت نہ ہو تو یہ صورت نجش میں داخل ہے اور نجش مکروہ تحریمی ہے۔ (دیکھیے عبارت نمبر 14تا 16)
2. یہ کہ اس صورت میں آڑھتی کی دو حیثیتیں ہیں اور ان دونوں حیثیتوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنا ضروری ہے ایک حیثیت وکیل کی ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک زمیندار کا مال وکیل ہونے کی حیثیت سے آڑھتی کے قبضہ میں ہے اس دوران اگر مال آڑھتی کی تعدی کے بغیر ہلاک ہو جائے تو موکل کی ملکیت ہی ہلاک ہو گی آڑھتی پر اس کا ضمان نہیں آئے گا اور دوسری حیثیت مشتری کی ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مال ہلاک ہو جائے تو آڑھتی کی ملکیت ہلاک ہوگی اور اگر ثمن ادا نہیں کیا تو آڑھتی پر اس مال کا ثمن ادا کر نالازم ہو گا لہذا تنازع سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ جب بولی ختم ہو جائے تو آڑھتی مؤکل کو اس کی اطلاع کر دے اس کے بعد مؤکل کی اجازت سے وہ مال خرید لے۔ (دیکھیے عبارت نمبر 17اور 18)
(1) شرح المجلة للاتاسي - (471/4)
المادة (1488) - لو باع الوكيل بالشراء ماله لمؤكله لا يصح المراد ان الوكيل بالشراء لا يملك شراء مال نفسه لمؤكله كما ان الوكيل بالبيع لا يملك :مال بيع مؤكله من نفسه كماستصرح به المادة (1496)... بخلاف البيع من نفسه اومن ابنه الصغير او عبده ولا دين عليه فانه لا يجوز وان امره المؤكل بذلك صريحا و عللوا ذلك بان الواحد لا يتولي طرفي العقد لانه يصير مستزيدا و مستنقصا، قابضا و مسلما، مخاصما و مخاصما في العيب وفي ذلك مالا يخفي.
(2) الفتاوى الهندية (3 / 589)
الوكيل بالبيع لا يملك شراءه لنفسه لأن الواحد لا يكون مشتريا وبائعا كذا في الوجيز للكردري. ولو أمره أن يبيع من نفسه أو يشتري لم يجز أيضا وكذا لو باع الوكيل من ابن له صغير لم يجز ولو باع من عبده أو مكاتبه لا يجوز بالإجماع كذا في السراج الوهاج.
(3) الدر المختار (5 / 521)
لا يعقد وكيل البيع والشراء والإجارة والصرف والسلم ونحوها (مع من ترد شهادته له) للتهمة وجوزاه بمثل القيمة (إلا من عبده ومكاتبه إلا إذا أطلق له الموكل) كبع ممن شئت (فيجوز بيعه لهم بمثل القيمة) اتفاقا (كما يجوز عقده معهم بأكثر من القيمة) اتفاقا: أي بيعه لا شراؤه بأكثر منها اتفاقا، كما لو باع بأقل منها بغبن فاحش لا يجوز اتفاقا، وكذا بيسير عنده خلافا لهما ابن ملك وغيره.وفي السراج: لو صرح بهم جاز إجماعا إلا من نفسه وطفله وعبده غير المديون.
(4) حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 521)
(قوله إلا من نفسه) وفي السراج: لو أمره بالبيع من هؤلاء فإنه يجوز إجماعا إلا أن يبيعه من نفسه أو ولده الصغير أو عبده ولا دين عليه فلا يجوز قطعا وإن صرح به الموكل اهـ منح.الوكيل بالبيع لا يملك شراءه لنفسه؛ لأن الواحد لا يكون مشتريا وبائعا فيبيعه من غيره ثم يشتريه منه.
(5) الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 137)
قال: "والعقد الذي يعقده الوكلاء على ضربين: كل عقد يضيفه الوكيل إلى نفسه كالبيع والإجارة فحقوقه تتعلق بالوكيل دون الموكل".
(6) حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 560)
(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له.
(7) الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 334)
وأفتيت بأن ضمان الدلال والسمسار الثمن للبائع باطل؛ لأنه وكيل بالأجر.
(8) الدر المختار (5 / 74)
(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا خلافا للشافعي (وشراء من لا تجوز شهادته له) كابنه وأبيه (كشرائه بنفسه) فلا يجوز أيضا خلافا لهما في غير عبده ومكاتبه.
(9) حاشية ابن عابدين رد المحتار) - (5 / 74)
(قوله بنفسه أو بوكيله)... لأن بيع وكيله بإذنه كبيعه بنفسه.والوكيل بالبيع أصيل في حق الحقوق، فلا يصح شراؤه لنفسه؛ لأنه شراء البائع من وجه ولا لغيره؛ لأن الشراء واقع له من حيث الحقوق فكان هذا شراء ما باع لنفسه من وجه، كذا يفاد من الزيلعي أيضا... (قوله كابنه وأبيه) وكعبده ومكاتبه؛ لأن شراء هؤلاء كشراء البائع بنفسه لاتصال منافع المال بينهم، وهو نظير الوكيل في البيع إذا عقد مع هؤلاء زيلعي: أي نظير ما لو باع الوكيل من ابنه ونحوه.
(10) الدر المختار (5 / 88)
(وإذا قبض المشتري المبيع برضا) عبر ابن الكمال بإذن (بائعه صريحا أو دلالة) بأن قبضه في مجلس العقد بحضرته (في البيع الفاسد) وبه خرج الباطل وتقدم مع حكمه وحينئذ فلا حاجة لقول الهداية والعناية: وكل من عوضيه مال كما أفاده ابن الكمال، لكن أجاب سعدي بأنه لما كان الفاسد يعم الباطل مجازا كما مر حقق إخراجه بذلك فتنبه. (ولم ينهه) البائع عنه ولم يكن فيه خيار شرط (ملكه) إلا في ثلاث في بيع الهازل وفي شراء الأب من ماله لطفله أو بيعه له كذلك فاسدا لا يملكه حتى يستعمله والمقبوض في يد المشتري أمانة لا يملكه به. وإذا ملكه تثبت كل أحكام الملك إلا خمسة: لا يحل له أكله، ولا لبسه، ولا وطؤها، ولا أن يتزوجها منه البائع، ولا شفعة لجاره لو عقارا أشباه. وفي الجوهرة وشرح المجمع: ولا شفعة بها فهي سادسة (بمثله إن مثليا وإلا فبقيمته) يعني إن بعد هلاكه أو تعذر رده (يوم قبضه) ؛ لأن به يدخل في ضمانه فلا تعتبر زيادة قيمته كالمغصوب.
(11) حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 90)
(قوله يعني إن بعد هلاكه إلخ) تقييد لضمانه بالمثل أو بالقيمة؛ لأنه إذا كان قائما بحاله كان الواجب رد عينه (قوله أو تعذر رده) عطف عام على خاص؛ لأن تعذر الرد يكون بالهلاك وبتصرف قولي أو حسي مما يأتي .
(12) شرح المجلة للاتاسي (487/4)
المادة (1496) (اذا اشتري الوكيل بالبيع مال مؤكله لنفسه لا صح)...ان الحيلة لمن اراد ان يشتري ما وكل ببيعه لنفسي او طفله ان يبيعه من اجنبي ثم يشتريه منه لنفسه او طفله فافهم.
(13) الفتاوى الهندية (3 / 567)
ومنه صحة إضافتها فتقبل التقييد بالزمان والمكان، فلو قال: بعه غدا لم يجز بيعه اليوم، ولو قال: اعتق عبدي هذا أو طلق امرأتي غدا لا يملكه اليوم، ولو قال: بع عبدي اليوم أو قال: اشتر لي عبدا اليوم أو قال: اعتق عبدي اليوم ففعل ذلك غدا فيه روايتان بعضهم قالوا الصحيح أن الوكالة لا تبقى بعد اليوم كذا في فتاوى قاضي خان .
(14) مشكاة المصابيح (2 / 142)
وعن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " لا تلقوا الركبان البيع ولا يبع بعضكم على بيع بعض ولا تناجشوا ولا يبع حاضر لباد ولاتصروا الإبل والغنم فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين بعد أن يحلبها :إن رضيها أمسكها وإن سخطها ردها وصاعا من تمر.
(15) مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (9 / 325)
ولا تناجشوا بحذف إحدى التاءين والنجش هو الزيادة في ثمن السلعة ،رغبة فيها لتخديع المشتري وترغيبه ونفع صاحبها.
(16) البحر الرائق، دار الكتاب الاسلامي (6 / 107)
قوله وكره النجش شروع في مكروهات البيع، ولما كان المكروه دون الفاسدأخره، وليس المراد يكونه دونه في حكم المنع الشرعي بل في عدم فساد العقد،وإلا فهذه كلها تحريمية لا تعلم خلافا في الإثم كذا في فتح القدير، وقد بحث هنا بحثا لا طائل تحته تركته عمدا، وقد تقرر في الأصول أن كل منهي عنه قبيح فإن كان لعينه أفاد بطلانه، وإن كان لغيره فإن كان لوصف كبيع الربا والبيع بشرط مفسد أفاد فساده، وإن كان بمحاور كهذه البيوع المكروهة أفادكراهة التحريم مع الصحة.
(17) الهداية في شرح بداية المبتدي (3 / 140)
فإن هلك المبيع في يده قبل حبسه هلك من مال المؤكل ولم يسقط الثمن لأن يده كيد الموكل، فإذا لم يحبسه يصير المؤكل قابضاً بيده.
(18) الفتاوى الهندية (3 / 23)
إذا تجانس القبضان بأن كانا قبض أمانة أو ضمان تناوبا وإن اختلفا :المضمون عن غيره لا غير.... والله سبحانه وتعالى.