کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
میں نے اپنا باغ جس میں 400 سیب کے درخت اور دوبورنگ والے کوئیں ہیں ، ایک آدمی کو سات سال کے لئے اجارہ پر دیا ہے۔ ہر سال کا اجارہ سات لاکھ (700,000)روپے مقرر ہوا میں نے مستا جر پر 200درختوں کی شاخ تراشی کی لکڑی، تیس کریٹ سیب اور ایک لوڈ بھوسا دینے کی شرط لگائی ہے۔ مستا جرایک لوڈ بھو سامجھے اپنےپاس سے دے گا جبکہ تیس کریٹ سیب اور 200 درختوں کی لکڑی اس باغ کی ہے۔ باقی دو سو درختوں کی لکڑی مستاجر لے گا،اس کے علاوہ نفع و نقصان، بجلی کابل اور خرابی وغیرہ مستاجر پر ہے البتہ اگر بورنگ میں پانی ختم ہوا تو نیابورنگ میرے ذمہ ہے۔ مذکورہ معاملہ کا ایک سال ہو گیا ہے مستاجر نے مجھے ایک سال کے سات لاکھ روپے کرایہ اور معاہدہ کے مطابق دو سو (200)درختوں کی شاخ تراشی کی لکڑی، تیس کریٹ سیب اور ایک لوڈ بھوسا دیا ہے۔ بعض علماءکرام فرماتے ہیں کہ یہ اجارہ فاسد ہے۔ ذکر کردہ وضاحت کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1. کیاباغات کو اجارہ پر دینا جائز ہے یا نہیں ؟
2. اگرمذکورہ معاملہ جائز نہ ہو تو مستاجر نے جو آمدنی حاصل کی ہے اور مجھے معاہدہ کے مطابق ایک سال کے سات لاکھ روپے کرایہ 200 در ختوں کی شاخ تراشی کی لکڑی ،تیس کریٹ سیب اور ایک لوڈ بھوسا دیا ہے ، اس کا کیا حکم ہے ؟
3. باغات کو ا جار ہ پر دینے کی کوئی جائز متبادل صورت تلاش کریں۔
(1)۔۔۔باغات کو جبکہ ان سے پھل مقصود ہوں ایک سال یا کئی سالوں کے لئے اجارہ یعنی ٹھیکہ پر دینا جائز نہیں کیو نکہ یہ در حقیقت درختوں کو کرایہ پر دینا ہے تاکہ درختوں کا پھل باغ کے کرایہ دار کوملے اورکرایہ مالک باغ کوملے ۔احادیث مبارکہ میں ان سے صراحتاً منع فرمایا گیا ہے۔(ماخذہ تبویب:554/55)
(2)۔۔۔آپ لوگوں کے درمیان باغ کے اجارہ کا جو مذکورہ معاملہ ہوا ہے اسے فسخ کرنا ضروری ہے اورمستاجر نے آپ کو ایک سال کا جو سات لاکھ روپے کرایہ اور ایک لوڈ بھوسادیا ہے وہ آپ مستاجر کو واپس کریں گے اورمستاجر نے اس دوران باغ کے پھلوں سے جو آمدنی اور 200 در ختوں کی شاخ تراشی کی لکڑی حاصل کی ہے وہ آپ کو واپس کرے گا جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کو جو ایک لوڈ بھوسا اور سات لاکھ روپے ملے ہیں اور مستاجرنے جو کچھ آمدنی حاصل کی ہے اس کا آپس میں حساب کر لیا جائے جو کمی بیشی ہو وہ ادا کردی جائے۔
مذکورہ معاملہ چونکہ اجارہ فاسدہ کا ہے جس میں مستاجر کو اجرت ِمثل(اس جیسے کام کی عام طور پر جو اجرت دی جاتی ہے) ملتی ہے لہذا آپ کے ذمہ مستا جر کو اس ایک سال کی مدت اجرت مثل دینالازم ہے، نیزا گرمستاجرنے اس دوران باغ کے درختوں پر کھاد ،اسپرے وغیرہ کی صورت میں کئے ہوں تو آپ کے ذمہ مستاجر کو ان اخراجات کی ادائیگی بھی لازم ہوگی۔ جہاں تک آپ کا مستاجر سے 200 در ختوں کی شاختراشی کی لکڑی اور تیس کریٹ سیب لینے کی بات ہے توچونکہ یہ چیزیں آپ کی ملکیت تھی۔ لہذا حساب کی کمی بیشی میں ان اشیاء کی مالیت کو شامل نہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ اگر او پر ذکر کردہ طریقہ کے مطابق حساب کتاب کا عمل مشکل ہو اور آپ دونوں آپس میں اس بات پر صلح کر لیں کہ مستاجر نے اس ایک سال کے دوران باغ کے در ختوں سے جو لکڑی اور پھلوں سے جو کچھ آمدنی حاصل کرلی ہے وہ اس کی اجرتِ مثل قرار دی جائے اور آپ نے جو سات لا کھ رو پیہ اور ایک لوڈ بھوسا لیا ہے وہ ز مین کا کرایہ قرار دیاجائے تو اس کی گنجائش ہے لیکن نا جائز عقد کرنے پر توبہ واستغفار ضروری ہے اور آئندہ کے لئے مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرنا ضروری ہے۔
(3)۔۔۔باغات کو ٹھیکہ پر دینے کی جائز صور تیں :
پہلی صورت: اگر باغ کی زمین قابل کاشت ہو جس میں سبزی و غیرہ اُگائی جاسکتی ہو تو پھل بیچنے کے بجائے زمین زراعت کے لئے اجرت پر دے دی جائے اور پھل بلا معاوضہ لینے کی صراحتاً اجازت دے دی جائے۔ چونکہ اس صورت میں مستاجرکو پھل لینے کی بھی اجازت ہو گی اس لئے اس بناء پر کر ایہ میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر زمین پر پھل دار درختوں کی کثرت کی وجہ سے سبزی و غیرہ نہ لگائی جاسکتی ہو یاز مین قابل کاشت نہ ہو تو اس صورت میں سے کئی سال یاا یک سال کے لئے اجرت پردینا جائز نہیں ہو گا۔
دوسری صورت: جواز کی ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جس شخص کو باغ ٹھیکہ پردینا مقصود ہو تو باغ کا مالک اس ٹھیکدار سے پہلے یہ معاملہ کرےکہ باغ کے تمام درخت ٹھیکیدار کو مساقات پر اس شرط کے ساتھ دےکہ ٹھیکیدار خود اور اپنےملاز مین کے ذریعے ان در ختوں کی خدمت کرے انہیں پانی پہنچائے اور بعد میں جو پھل حاصل ہوں ان میں باہمی رضامندی سے حصہ داری کی کوئی نسبت طے کرلی جائے، مثلا نوے فیصد ٹھیکہ دار کے ہوں اور دس فیصد حصے باغ کےمالک کے ہوں جب ٹھیکدار سے اس طرح کا معاملہ طے پا جائے تو اس کے بعد مستقل معاملے کے طورپر باغ کی زمین اسی ٹھیکیدار کو کرایہ پر دے دےاور کرایہ اتنا مقرر کرے جتنا عام طور پر ٹھیکہ پر دیتے وقت مقررکیا جاتا ہے اگرباہمی رضامندی سے یہ طے پاجائے اورآخر میں درختوں کے پھل تیار ہو جائیں تو مالک کو اختیار ہے کہ پھلوں میں اپنا حصہ وصول کرلے یا اپنا حصہ ٹھیکیدارہی کو بخش دےواضح رہے اس جائز صورت میں دو معالے مستقل طور پرکرناضروری ہے پہلے مساقات کا معاملہ کرنا پھر زمین کےکرایہ کا معاملہ کرنا یعنی ایک معاملہ دو سرے معاملہ کے ساتھ مشروط نہ ہونا چاہئے۔
شرح النووي على مسلم(10/193)
وأما النهي عن بيع المعاومة وهو بيع السنين فمعناه أن يبيع ثمر الشجرة عامين أو ثلاثة أو أكثر فيسمى بيع المعاومة وبيع السنين وهو باطل بالإجماع نقل الإجماع فيه بن المنذر وغيره لهذه الأحاديث ولأنه بيع غرر لأنه بيع معدوم ومجهول غير مقدور على تسليمه وغير مملوك للعاقد والله أعلم.
بدائع الصنائع(4/175)
وإذا عرف أن الإجارة بيع المنفعة فنخرج عليه بعض المسائل فنقول: لا تجوز إجارة الشجر والكرم للثمر؛ لأن الثمر عين والإجارة بيع المنفعة لا بيع العين، ولا تجوز إجارة الشاة للبنها أو سمنها أو صوفها أو ولدها؛ لأن هذه أعيان فلا تستحق بعقد الإجارة.
الفتاوي الهندية(4/442)
ولا تجوز إجارة الشجر على أن الثمر للمستأجر وكذلك لو استأجر بقرة أو شاة ليكون اللبن أو الولد له. كذا في محيط السرخسي.
الفتاوي الهندية(4/446)
ولو استأجر أرضا فيها رطبة سنة فالإجارة فاسدة.... ثم الزرع إذا لم يدرك فأراد جواز الإجارة في الأرض فالحيلة في ذلك أن يدفع الزرع إليه معاملة إن كان الزرع لرب الأرض على أن يعمل المدفوع إليه في ذلك بنفسه وأجرائه وأعوانه على أن ما رزق الله تعالى من الغلة فهو بينهما على مائة سهم من ذلك للدافع وتسعة وتسعون سهما للمدفوع إليه ثم يأذن له الدافع أن يصرف السهم الذي له إلى مؤنة هذه الضيعة أو إلى شيء أراد ثم يؤاجر الأرض منه.... وكذلك الحيلة في الشجر والكرم يدفع الشجر والكرم معاملة. كذا في المحيط... ولو آجر مع هذا بدون الحيلة ثم سلم بعدما فرغ وحصد ينقلب جائزا هكذا في الخلاصة.
الهداية في شرح بداية المبتدي(4/339)
قال: "وإذا فسدت فالخارج لصاحب البذر" لأنه نماء ملكه، واستحقاق الأجر بالتسمية وقد فسدت فبقي النماء كله لصاحب البذر. قال: "ولو كان البذر من قبل رب الأرض فللعامل أجر مثله لا يزاد على مقدار ما شرط له من الخارج" لأنه رضي بسقوط الزيادة، وهذا عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله "وقال محمد: له أجر مثله بالغا ما بلغ، لأنه استوفى منافعه بعقد فاسد فتجب عليه قيمتها إذ لا مثل لها" وقد مر في الإجارات.