کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
1. چرس، افیون اور بھنگ کی کاشت کرنا کیسا ہے ؟ نیز اس میں عشر کا کیا حکم ہے؟یعنی اگر کوئی شخص ان اشیاء کو کاشت کرکے پیداوار حاصل کرلے توان کی پیداوار پرعشر واجب ہوگایا نہیں ؟
2. اس کے (چرس،افیون اور بھنگ )کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم پر زکوۃ لازم ہوگی ؟ہمارے علاقے میں لوگوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
(1)۔۔۔ واضح رہے اس وقت چرس صرف بطور نشہ معصیت ہی میں استعمال ہوتی ہے اور نشہ کے عادی افراد ہی اسے خریدتے ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق اس وقت اس کا جائز مصرف موجود نہیں ہے اور حکومت نے بھی اس کی تجارت پر پابندی عائد کی ہے اس لیے اس کی کاشت کرنا، اس کی تجارت کا مشغلہ اختیار کرنانا جائز اور گناہ ہے۔حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد نے بھنگ، افیون کی کاشت کو بالکل ناجائز قرار دیا ہے جبکہ موجودہ دورمیں بھنگ، افیون کا جائز استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، اس لئے ان کی کاشت اور تجارت جائز نہیں ہے ۔ (ماخذہ التبويب75/802)
موجودہ حالات کے پیش نظر بھنگ وغیرہ کی کاشت اگرچہ ناجائز ہے، تاہم اگر کسی نے بھنگ اور افیون وغیرہ کی کاشت کی تو حاصل ہونے والی پیداوار سے عشر نکالناشرعاً واجب ہے، کیونکہ فصل فی نفسہ حرام نہیں ہے، بلکہ حرام اس کاناجائز استعمال ہے جو بعد میں ہوتا ہے، عشر کا اس سے کوئی تعلق نہیں، لہذا ان کا عشر نکالنا واجب ہے۔(1) (التبویب:7/1632)
(2)۔۔۔ چرس کا استعمال صرف نشہ میں ہوتا ہے لہذا اس کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی ناجائزہے، بلانیت ثواب اس کا صدقہ کرنالازم ہے۔
افیون اور بھنگ کی تجارت اگر چہ نا جائز ہے، تاہم اگر کسی نے ان کو فروخت کر کے رقم حاصل کرلی ہے تو چونکہ فی الجملہ دوائی کے طور پر ان کا جائز استعمال بھی موجود ہے، اس لئے اس سے حاصل شدہ آمدنی کو حرام نہیں کہا جاسکتا۔عشر ادا کرنے کے بعد مذکورہ اشیاء ( افیون، بھنگ) فروخت کر دی تو اس سے حاصل شدہ رقم پر زکوۃ واجب ہونےمیں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس رقم کے حاصل ہونے سے پہلے بھی اس شخص کے پاس بقدر نصاب سونا، چاندی یا نقد ر قم و غیرہ موجود تھی تو اس صورت میں اس رقم پر مال مستفاد ہونے کی حیثیت سے زکوۃ واجب ہوگی یعنی پہلے سے موجود نصاب پرسال گزرنے سے پیداوار سے حاصل شد ہ ر قم سمیت کل رقم پر زکوۃ واجب ہو گی اور اگر پہلے سے بقدر نصاب مال موجودنہیں تو پھر اس رقم کے حاصل ہونے کے بعد جب اسلامی قمری سال گزر جائیگا تو اس رقم پر زکوۃ واجب ہوگی۔(2) (مأخذه التبويب: 1/590)
(1)
حاشية ابن عابدين - (6 / 454)
( وصح بيع غير الخمر ) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان لكن الفتوى على قوله في البيع وعلى قولهما في الضمان إن قصد المتلف الحسبة وذلك يعرف بالقرائن وإلا فعلى قوله كما في التتارخانية وغيرها .. ثم إن البيع وإن صح لكنه يكره كما في الغاية.
حاشية ابن عابدين - (6 / 458)
قال في البحر وقد اتفق على وقوع طلاقه أي أكل الحشيش فتوى مشايخ المذهبين الشافعية والحنفية لفتواهم بحرمته وتأديب باعته حتى قالوا من قال بحله فهو زنديق كذافي المبتغى.
رد المحتار - (15 / 134)
(مطلب فِي الْبَنْج وَالْأَنْبُونِ وَالحَشِيشَةِ ) قَوْلُهُ( لَكِنْ دُونَ حُرْمَةِ الْخَمْرِ ) ؛ لِأَنَّ حُرْمَةَالخُمْرِ قَطْعِيَّةٌ يَكْفُرُ مُنْكِرُهَا بِخِلَافِ هَذِهِ ( قَوْلُهُ لَا يُحدُّ بَلْ يُعَزِّرُ ) أَيْ بِمَا دُونَ الْحَدِّ كَمَافي الدُّرُ الْمُنتَقَى عَنْ الْمِنَحِ ، لَكِنْ فِيهِ أَيْضًا عَنْ الْمُهُسْتَانِيِّ عَنْ مَانِ الْبَزْدَوِيِّ أَنَّهُ يُحدُبالشكر من البنج في زمانِنَا عَلَى الْمُمى بها هـ تأمل .
(2)
الدر المختار (2/ 273)
والأصل أن ما عدا الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة بشرط عدم المانع المؤدي إلى الثنى وشرط مقارنتها لعقد التجارة.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 273)
(قوله: المؤدي إلى الثنى) هذا وصف في معنى العلة أي لا زكاة فيما نواه للتجارة من نحو أرض عشرية أو خراجية لئلا يؤدي إلى تكرار الزكاة لأن العشر أو الخراج زكاة أيضا والثني بكسر الثاء المثلثة وفتح النون في آخره ألف مقصورة: وهو أخذ الصدقة مرتين في عام كما في القاموس ومنه كما في المغرب قوله - صلى الله عليه وسلم - «لا ثنى في الصدقة».... واللہ سبحانہ و تعالی اعلم