Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


ملازمین کا کمپنی کی طرف سے حاصل شدہ میڈیکل انشورنس سے علاج کروانا


سوال

ایک شخص کسی کمپنی میں ملازم ہے، شرا ئطِ ملازمت کے تحت کمپنی اس کے اور اس کے بیوی بچوں کے مفت علاج کی ذمہ دار ہے، لیکن علاج معالجہ کے اخراجات کی ادائیگی کمپنی براہ راست خود نہیں کرتی ہے، بلکہ انشورنس کمپنی کو طے شدہ رقم ماہانہ یا سالانہ ادا کرتی ہے، جس کے عوض انشورنس کمپنی ملازمین کے علاج پر خرچ ہونے والی رقم ادا کرتی ہے، لیکن ملازم علاج کرائے یا بالکل نہ کرائے کمپنی کی طرف سے انشورنس کمپنی کو رقم کی ادائیگی بہر حال ہوتی ہے، کیا مذکورہ صورت میں ملازمین کو انشورنس کمپنی کی معرفت علاج پر خرچ کردہ رقم لینا اور اس سے علاج کرانا جائز ہے؟ حالانکہ صحت کی انشورنس کرانا حکومت کی طرف سے جبری نہیں ہے، بلکہ کمپنی اپنی سہولت کے لئے ایسا کرتی ہے۔

جواب

اپنے ملازمین کے علاج کیلئے کسی کمپنی کے انشورنس کمپنی سے معاملہ کی عموما تین صورتیں ہوتی ہیں:

1. کمپنی کے ملازمین کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتے ہیں اور علاج کے اخراجات کلینک یا ہسپتال والے براہ راست انشورنس کمپنی سے وصول کرتے ہیں ، اس صورت میں اگر چہ محکمہ کو انشورنس کے معاملے کاگناہ ہو گا لیکن ملازم کیلئے جائز ہے کہ وہ علاج کرائے، کیونکہ علاج کے خرچ کی ذمہ داری محکمے پر ہے، پھر وہ بلوں کی ادائیگی کے لیے جو طریق کار اختیار کرے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے۔

2. دوسری صورت یہ ہے کہ کمپنی کے ملازمین کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتے ہیں اور کلینک یا ہسپتال والے علاج کے اخراجات ان ملازمین کی کمپنی سے وصول کرتے ہیں اور پھر کمپنی اس علاج کے اخراجات انشورنس کمپنی سے وصول کر لیتی ہے، یہ صورت بھی محکمے کیلئے تو جائز نہیں ،مگر ملازم کیلئے اس طرح علاج کراناجائز ہے۔ لمامر

3. تیسری صورت یہ ہے کہ ملازم کلینک یا ، ہسپتال کی فیس خود ادا کرے لیکن محکمے نے اسے پابند کر دیا ہو کہ وہ بل کی رقم خود جا کر انشورنس کمپنی سے وصول کرے، اس صورت میں چونکہ ملازم کو انشورنس کمپنی سے رقم مل رہی ہے جس کا زیادہ تر روپیہ حرام ہے، اس لئے ملازم کے لئے اس کا لینا جائز نہیں، البتہ اگر ملازم کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس کے محکمے نے انشورنس کمپنی کو جتنا پریمیم ادا کیا ہے، ابھی تک اتنی رقم اس کے ملازمین نے وصول نہیں کی تو جتنا پریمیم انشورنس کمپنی کے پاس باقی ہو صرف اس حد تک رقم وصول کرنا جائز ہوگا ۔


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 190/11 المصباح : MCS:001
23 0