Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


دواساز کمپنیوں کا اپنی دوا تجویز کرنے پر ڈاکٹرز کو کمیشن دینا


سوال

ہمارا تعلق میڈیکل فارما سے ہیں، ہمیں بہت سے مسائل در پیش ہیں جس کا ہم شرعی حل معلوم کرنا چاہتے ہیں۔

1. ڈاکٹر ز حضرات کے پاس جا کر اپنی کمپنی کی پروڈکٹ کے بارے میں انفار میشن دے کر انہیں مریضوں کے لیے لکھنے پر ایگری کرناہوتا ہے جس پر ڈاکٹر ز کمیشن مانگتے ہیں اور ڈاکٹر ز یہ کہتے ہیں کہ ہماری وجہ سے کمپنی کو فائدہ ہوتا ہے اس لیے ہمیں بھی حصہ ملنا چاہیے اورخود کو کمپنی کا پارٹنرز سمجھتے ہیں اور کچھ ڈاکٹر ز اپنی زبان سے تو کچھ نہیں کہتے اور کوئی ڈیمانڈ نہیں کرتے لیکن اگر انہیں کمیشن نہ دیں تو پھر یہ ہماری پروڈکٹ نہیں لکھتے اس لیے ان کو بھی کمیشن دینا پڑ تا ہے تو کیا ہمارے لیے کمیشن دینا صحیح ہے؟

2. بعض ڈاکٹرز کا اپنا یا ان کے کلینک کے قریب میڈیکل اسٹور ہوتا ہے وہ مریضوں کو ہماری پروڈکٹ دیتے ہیں اور میڈیکل اسٹور پر ہماری پروڈکٹ کے سیل کے حساب سے اپنا کمیشن مانگتے ہیں جیسے ایک لاکھ روپے کی سیل پر پچیس ہزار روپے لیتے ہیں کیا ہمارے لیے یہ پیسے دیناصحیح ہے؟

3. کمپنی ڈاکٹرز کو مختلف چیز یں گفٹ میں دیتی ہیں (جیسے گھڑی، ڈائریاں وغیرہ) اور بعض ڈاکٹر ز کمپنی سے ڈیمانڈ کرتے ہیں (جیسے فریج اے سی، ٹکٹ وغیرہ) تو کیا یہ دینا صحیح ہے ؟

4. ہم ڈاکٹر ز کو اچھے اور معیاری ہو ٹلز میں دعوت دیتے ہیں اور اس کا بل بنا کر کمپنی سے وصول کر لیتے ہیں تو ایسا کرنا صحیح ہے؟

5. کمپنی کی طرف سے ہمیں ڈاکٹر ز کو دینے کے لیے فری سیمپلز ملتے ہیں کیا ہمارے لیے ان سیمپلز کو بیچنا یا ان کو کسی ضرورت مند مریض کوفری میں دینا صحیح ہے؟

6. ہمیں ایک مخصوص ایر یاد یا جاتا ہے اگر ہم اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے کسی دوسرے ایریا میں مال فروخت کر دیں تو کیا یہ صحیح ہو گا؟

7. کمپنی پروڈکٹ کی قیمت طے کرتی ہے کہ مارکیٹ میں اسی ریٹ ہی میں دینی ہے ہمیں ایک ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ اگر یہ ٹارگٹ پورا کر لیاتو ہمیں کمیشن ملے گا، ہم اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے اپنی جیب سے پیسے ملا کر یا سیمپلز وغیرہ بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی رقم کےذریعے کمپنی ریٹ سے سستی مارکیٹ میں دیتے ہیں اور ٹارگٹ پورا ہونے پر جو کمیشن ملتا ہے اس سے ہمارے پیسے کور ہو جاتے ہیں کیا ایساکرنا صحیح ہے ؟ ان چیزوں کا بعض دفعہ سینئر کو معلوم ہوتا ہے اور بعض دفعہ سینئر خود بھی کرواتے ہیں اور بعض دفعہ کمیشن کے لیے ہم خودبھی کرتے ہیں ؟

جواب

(1،2)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں آپ حضرات کا ڈاکٹروں کو اپنی کمپنی کی دوائیاں تجویز کرنے پر کمیشن دینا جائزنہیں، چاہے ڈاکٹر خود مطالبہ کریں یا آپ حضرات ان کو پیشکش کریں اور چاہے ڈاکٹر مریضوں کے لئے آپ کی کمپنی کی دوائیاں لکھنے پر کمیشن مانگیں یا اپنے میڈیکل اسٹور پر آپ کی پروڈکٹ کے سیل کے حساب سے کمیشن مانگیں، کیونکہ مذکورہ سب صورتوں میں یہ کمیشن دینا شر عاًرشوت ہے جس سے اجتناب کرنالازم ہے۔(1،2) (مأخذه التبويب: 13/1544بتغییرٍ)

(3)۔۔۔دواؤں کی کمپنیاں ڈاکٹروں کو جو تحفے تحائف دیتی ہیں، یاڈاکٹر حضرات خود ڈیمانڈ کرتے ہیں، اگران تحفے تحائف سے مقصود کمپنی کی تشہیر ہو جیسے اس کمپنی کے نام سے بنی ہوئی چھوٹی موٹی اشیاء مثلا کلینڈر ، قلم اور لیٹرپیڈ وغیرہ جو کہ عام طور پر کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کی تشہیر کے لیے بلا امتیاز تمام ڈاکٹروں کو دیتی ہیں ، چاہے وہ ڈاکٹرمریضوں کواس کمپنی کی دوائیں تجویز کرتاہو یانہ کرتا ہو تواس قسم کی چیزیں ڈاکٹروں کو دینا درست ہے، لیکن اگر قیمتی ا شیاءدی جائیں اور اس سے مقصود یہ ہو کہ ڈاکٹر زیادہ سے زیادہ اس کمپنی کی ادویات لکھے، توایسی صورت میں کمپنی کا تحفہ دینا جائز نہیں، کیونکہ یہ رشوت ہے، جس کا لینادینا حرام اورناجائز ہے۔ (ماخذہ التبویب 802/74 بتصرفٍ) (3)

(4)۔۔۔ آپ حضرات کا ڈاکٹروں کو اعلی اور معیاری ہوٹلوں میں دعوت دینے سے مقصود اگر کمپنی کی پروڈکٹ کاتعارف اور تشہیر ہو تو ایسی صورت میں آپ کے لئے ڈاکٹروں کو دعوت دینا اور اس کابل کمپنی سے وصول کرنا جائزہے لیکن اگر مقصود یہ ہو کہ ڈاکٹر زیادہ سے زیادہ اس کمپنی کی ادویات لکھے، توایسی صورت میں یہ بھی رشوت ہی کی ایک صورت ہے ، اس لئے اس سے اجتناب کرنالازم ہے۔(4)

(5)۔۔۔آپ کو کمپنی کی طرف سے ڈاکٹروں کو دینے کے لئے جو فری سمپلز ملتے ہیں، اگر کمپنی کی طرف سے انہیں بیچنے کی صریح اجازت نہ ہو، تو آپ کے لئے ایسی دوائیاں بیچنا جائز نہیں، البتہ کسی ضرورت مند مریض کو مفت دینے کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر آپ کو کمپنی کی طرف سے کسی ضرورت مند کو مفت دینے کی صراحتاً ممانعت ہو تو ایسی صورت میں آپ کے لئے مفت میں دینا جائز نہیں ہوگا، لیکن اگرصراحتاً ممانعت نہ ہو بلکہ صراحتاً یاد لالۃً اجازت ہو تو آپ کے لئے یہ سیمپلز کسی ضرورت مند مریض کو مفت میں دینا جائز ہے۔ (5)

(6)۔۔۔ آپ کو دوائیاں فروخت کرنے کے لئے کمپنی کی طرف سے جو ایر یادیا جاتا ہے، آپ کے لئے اس مختص کردہ ایریا کے علاوہ کسی دوسرے ایریا میں مال فروخت کرنا جائز نہیں۔ (6)

(7)۔۔۔صورت مسئولہ میں اگر آپ کو کمپنی کی طرف سے متعین کردہ ریٹ سے کم میں ادویات فروخت کرنے کی اجازت ہو ، تو آپ کے لئے کمپنی ریٹ سے کم میں مال فروخت کرنا جائز ہے، لیکن اگر کمپنی کی طرف سے اجازت نہ ہو توآپ کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں، چاہے سینئر کو معلوم ہو اور اس کے کہنے پر یہ کام کیا جائے یا معلوم نہ ہو۔(7)

(1،2)
الجامع الصحيح سنن الترمذي (3/ 258)
عن عبد الله بن عمرو قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي قال أبو عیسی هذا حديث حسن صحيح.

حاشية ابن عابدين (362/5)
وفي الفتح ثم الرشوة أربعة أقسام منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهوالرشوة على تقليد القضاء والإمارة. الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولوالقضاء يحق؛ لأنه واجب عليه.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (24/4)
ولو استأجرها للطبخ والخبز؛ لم يجز ولا يجوز لها أخذ الأجرة على ذلك؛ لأنها لوأخذت الأجرة لأخذتها على عمل واجب عليها في الفتوى فكان في معنى الرشوةفلا يحل لها الأخذ.

إعلاء السنن (64/15)
والحاصل أن حد الرشوة هوما يؤخذ عما وجب على الشخص سواء كان واجباعلى العين أو على الكفاية وسواء كان واجبا حقا للشرع كما في القاضي وأمثاله...... أوكان واجباً عقداً كمن آجر نفسه لإقامة أمر من الأمور المتعلقة بالمسلمين فيمالهم، أو عليهم كأعوان القاضي، وأهل الديوان وأمثالهم.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (423/6)
لا بأس بالرشوة إذا خاف على دينه والنبي - عليه الصلاة والسلام - كان يعطي الشعراء ولمن يخاف لسانه (قوله إذا خاف على دينه عبارة المجتبى لمن يخاف وفيه أيضا دفع المال السلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اه.

(3،4)
الفتاوى الهندية - (3 / 330)
الهدية مال يعطيه ولا يكون معه شرط والرشوة مال يعطيه بشرط أن يعينه كذافي خزانة المفتين.

البحر الرائق، دار الكتاب الاسلامي - (6 / 285)
وذكر الأقطع أن الفرق بين الهدية والرشوة أن الرشوة ما يعطيه بشرط أن يعينه والهدية لا شرط معها اه.

(5)
الفتاوى الهندية - (3 / 589)
الموكل إذا شرط على الوكيل شرطا مفيدا من كل وجه بأن كان ينفعه من كل وجه فإنه يجب على الوكيل مراعاته أكده بالنفي أو لم يؤكده.

الفتاوى الهندية - (3 / 591)
ولو قال بعه من فلان فباعه من غيره لا يجوز كذا في فتاوى قاضي خان.

(6)
المبسوط للسرخسي (19 / 55)
والوكالة تقبل التقييد بالمكان والزمان، ولو قال بعه بالكوفة ففي أي أسواق الكوفةباعه جاز؛ لأن مقصوده بماذا التقيياء سعر الكوفة، وفي أي أسواق الكوفة باع، فإنه إنما باع بسعر الكوفة، وإن حمله إلى مصر آخر فباعه – لم يجز بيعه، فكان ضامنا له قياسا واستحسانا لتقييد الأمر بالكوفة نصا.

الفتاوى الهندية - (3 / 567)
ومنه صحة إضافتها فتقبل التقييد بالزمان والمكان، فلو قال: بعه غدا لم يجز بيعه اليوم، ولو قال: اعتق عبدي هذا أو طلق امرأتي غدا لا يملكه اليوم، ولو قال: بع عبدي اليوم أو قال: اشتر لي عبدا اليوم أو قال: اعتق عبدي اليوم ففعل ذلك غدافيه روايتان بعضهم قالوا الصحيح أن الوكالة لا تبقى بعد اليوم كذا في فتاوى قاضي خان ولو وكله ينقاضي دينه بالشام ليس له أن يتقاضاه بالكوفة كذا في البحرالرائق.

(7)
الفتاوى الهندية - (3/ 588)
أما إذا قال الموكل بعه بألف أو بمائة لا يجوز أن ينقص بالإجماع كذا في السراج ولو وكله بأن يبيعه بألف درهم فباعه بأكثر نفذ البيع وإن باعه بأقل لم ينفذ الوهاج.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (27/6)
(وأما) : الوكيل بالبيع فالتوكيل بالبيع لا يخلو إما أن يكون مطلقا، وإما أن يكون مقيدا، فإن كان مقيدا يراعى فيه القيد بالإجماع، حتى إنه إذا خالف قيده لا ينقذعلى الموكل ولكن يتوقف على إجازته.... إذا قال: بع عبدي هذا بألف درهم قباعه بأقل من الألف لا ينفذ... واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1759/38 المصباح : MCS:001
11 0