ہمارے علاقے میں جب زمیندار کسی آڑھتی سے بیج ادھار لیتا ہے تو وہ اخلاقی طور پر اس بات کا پابند سمجھا جاتاہے کہ اپنی پیداوار اور غلہ بیچنے کے لیے اسی آڑھتی کے پاس آئے۔ بعض آڑھتی اسے کہہ بھی دیتے ہیں کہ خودبھی ہمارے پاس آنا اور دوسروں کو بھی لانا۔ ویسے بھی آڑھتی حضرات ادھار صرف اسی کو دیتے ہیں جس کےبارے میں سو فیصد یقین ہو کہ وہ اپنا غلہ انہیں کے پاس لائے گا۔ اگر زمیندار اپنا غلہ کسی اور آڑھتی کے پاس لے جائے اور ادھار دینے والے آڑھتی کو پتہ چلا کہ زمیندار غلہ دوسرے آڑھتی کے پاس لے گیا ہے تو وہ دوسرے آڑھتی کے نام پر چی لکھ کر بھیجتا ہے کہ فلاں زمیندار نے میرے اتنے اتنے پیسے دینے ہیں۔ زمیندارکو بھی دوسرے آڑھتی کے سامنے کیا جاتا ہے اور زمیندار اقرار کرتا ہے کہ ہاں میں نے اس کے اتنے اتنےپیسے دینے ہیں۔ دوسرا آڑھتی زمیندار کے بل میں سے ادھار رقم نکال کر پہلے آڑھتی کو دے دے گا اور باقی رقم زمیندار کے حوالے کرے گا۔ اگر زمیندار کہے کہ میں نے ابھی نہیں دینے تو پھر پہلے آڑھتی کی مرضی پرموقوف ہو گا اگر اس نے رعایت دے دی تو ٹھیک ورنہ دوسرا آڑھتی ہر حال میں پہلے آڑھتی کی رقم تو زمیندارکے بل سے کاٹ لے گا۔ایسا نہیں ہو تا کہ ادھار دینے والے آڑھتی دوسرے آڑھتی سے اس مال کا کمیشن وصول کریں جو مال زمیندار( مدیون) نے اُسے فروخت کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ:
1. کیاز میندار کو اخلاقی طور پر اس بات کا پابند بنانا کہ وہ مال صرف ادھار دینے والے آڑھتی کے پاس لائے،درست ہے ؟
2. کیا اپنے پیسوں کی وصولی کے لیے مذکورہ بالا طریقہ کار شرعاً جائز ہے؟
(1)۔۔۔واضح رہے کہ قرض دینا ایک نیک کام ہے، اور ثواب کی چیز ہے، جس پر احادیث میں بڑے ثواب کا وعدہ ہے، اس پر
کوئی نفع وصول کرنا شرعاً سود ہے جو کہ نا جائز اور حرام ہے۔ اور قرض کے ساتھ کسی اور چیز کی شرط لگانا بھی درست نہیں۔
مسئولہ صورت میں زمیندار کو قرض دیتے ہوئے آڑھتی کا یہ شرط لگانا کہ اپنا مال فروخت کے لئے ہمارے پاس لانا ، درست نہیں، جس کی پابندی زمیندار پر لازم نہیں، بلکہ وہ آزاد ہے خواہ اس کے ذریعہ مال بکوائے یا کسی اور کے ذریعہ۔
اور اگر زمیندار اپنا مال اسی آڑھتی کے پاس لائے ، اور وہ آڑھتی ، زمیندار سے سستے داموں وہ مال خریدے یا اگر کسی اور کو بکوائے تو زیادہ کمیشن وصول کرے، تو یہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، جس سے بچنا لازم ہے۔
لیکن اگر آڑھتی ثمنِ مثل پر ہی زمیندار کا مال خریدے، اور دوسرے کو فروخت کرنے کی صورت میں عرف کےمطابق ہی کمیشن وصول کرے تو اس صورت میں سود تو نہیں البتہ قرض کے ساتھ اس کی شرط لگانا درست نہیں ، اس سےاجتناب کیا جائے ، شرط کے بغیر اگر زمیندار خود سے آڑھتی کے پاس آئے یا اس کا مستقل گاہک ہونے کی وجہ سے آئے تواس میں کوئی حرج نہیں۔(1)
(2)۔۔۔قرض شرعاً چونکہ تاجیل (یعنی مدت مقرر کرنے ) کو قبول نہیں کرتا ، اس لئے آڑھتی وقت سے پہلے بھی اس کاتقاضا کرسکتا ہے، لیکن اس طرح کرنا اخلاقاً درست نہیں۔ اور دوسرے آڑھتی کے ذریعے اپنا قرض وصول کرنے کا جوطریقہ پہلے آڑھتی نے اختیار کیا، یہ اگر چہ جائز ہے، لیکن اخلاقی طور پر اچھا نہیں۔(2)
(1)
المبسوط للسرخسى باب القرض والصرف ،(14/ 40)
إذا اشترى بيعا على أن يقرضه فهذا فاسد لنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع وسلف ولنهيه صلى الله عليه وسلم عن بيع وشرط والمراد شرط فيه منفعة لأحد المتعاقدين لا يقتضيه العقد وقد وجد ذلك.
(2)
المبسوط للسرخسى : باب البيع بالفلوس( 14/33)
لا يجوز الأجل في القرض معناه: أنه لو أجله عند الإقراض مدة معلومة أو بعد الإقراض لايثبت الأجل وله أن يطالبه به في الحال. واللہ سبحانہ وتعالی اعلم