درج ذیل مسئلہ میں رہنمائی درکار ہے:
ہمارا ایک پلاسٹک پرنٹنگ فیکٹری میں حصہ ہے، جس کی نوعیت درج ذیل ہے:
فیکٹری کی کل مالیت تقریبا 20 کروڑ روپے ہے،فیکٹری کے سرمائے کا تقریباً 25 فیصد بینک سے سودی لون پر مبنی ہے،فیکٹری کی انشورنس بھی کروائی گئی ہے۔ جس کا پر یمیم تقریبا ایک کروڑ جمع کروایا گیا تھا،صورتحال یہ ہے کہ اس فیکٹری کا تقریباً 70 فیصد حصہ ایک حادثے میں جل گیا ہے، چونکہ فیکٹری انشورنس شدہ تھی اس لئے انشورنس کمپنی سے اس کا کلیم کروایا گیا، تو تقریباً 14 کروڑ روپے کی مالیت کا کلیم منظور ہوا ہے، جبکہ باقی ماندہ فیکٹری (جس میں زمینیں، تعمیر ، کچھ مشینری ، خام مال، تیار شدہ مال اور بینک بیلنس ہے) کی مالیت 6 کروڑ ہے۔دریافت طلب امور یہ ہیں کہ :
1. آیا انشورنس کا کلیم حاصل کرنا جائز ہے؟
2. بعض شرکاء ایسے ہیں جو انشورنس کا کلیم لینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے (مثلاً ایک شریک جو کہ آغا خانی ہیں اور فیکٹری میں 25فیصد حصے کے شریک ہیں ) تو کیا یہ ممکن ہے کہ جو شر کاء انشورنس کا کلیم لینا نہ چاہتے ہوں وہ اپنا حصہ فیکٹری کے اس حصے سے وصول کر لیں، جو ضائع ہونےسے بچ گیا ہے اور باقی شرکاء انشورنس کی رقم وصول کر لیں۔
مثال کے طور پر فیکٹری کے کل سات شریک ہیں جن میں سے ایک شریک (آغا خانی) کا حصہ 25 فیصد ہے، جبکہ باقی چھ شرکاء کا حصہ مساوی یعنی ہر ایک کا 12.5 فیصد ہے، مذکورہ شرکاء میں سے آغا خانی اور مزید دو شریک انشورنس کا کلیم لینے میں حرج نہیں سمجھتے۔
اب جبکہ فیکٹری جس کی مالیت 20 کروڑ تھی ، فیکٹری کا 14 کروڑ کا نقصان ہوا ہے جس کا کلیم مل رہا ہے ، جبکہ 4 کروڑ کے بقدر فیکٹری نقصان سےمحفوظ رہی ہے اب فیکٹری کے شرکاء باہمی رضامندی سے طے کر لیتے ہیں کہ تین شرکاء (جن میں ایک آغا خانی بھی ہے) اپنا حصہ جو کہ دس کروڑہے، انشورنس کی رقم سے لے کر فیکٹری سے دستبردار ہو جائیں، جبکہ باقی چار شر کا ء اپنا حصہ (دس کروڑ ) اس طرح وصول کریں کہ 4 کروڑ کی فیکٹری کو تقسیم کرلیں اور انشورنس کی باقی رقم یعنی چار کروڑ کو شرعی مصارف (صدقہ وغیرہ) میں خرچ کردیں۔
3. کیا یہ جائز ہے کہ آغا خانی شریک اپنا حصہ انشورنش کی رقم سے لے کر باقی فیکٹری سے دستبردار ہو جائیں، اور فیکٹری دوسرے شرکاء میں تقسیم کر دی جائے۔جائز ہوگا یا نہیں؟
4. اگر مذکور ہ انشورنس کی رقم سے دوبارہ فیکٹری کو چلایا جائے تو کیا اس میں ہمارا حصہ ہوگا یا نہیں اور اس سے حاصل ہونے والا نفع لیناجائز ہوگا یا نہیں ؟بینوا توجروا
(1)۔۔۔ مذکورہ صورت میں انشورنس کمپنی کو پریمیم کی صورت میں جتنی رقم جمع کرائی ہو، اس رقم کی حد تک انشورنس کمپنی سے نقصان کی صورت میں ملنے والا کلیم لینا جائز ہے۔ اس سے زائد لینا جائز نہیں ہے۔
(2)۔۔۔ واضح رہے کہ انشورنس کمپنی میں جمع کرائے گئے پریمیم سے زائد رقم لینا اور اسے اپنے استعمال میں لاناہر گز جائز نہیں ہے، بلکہ انشورنس کمپنی سے جو زائد رقم ملے وہ اصل مالکوں تک پہنچانا ضروری ہے ،اگر انشورنس کمپنی کو واپسی کی صورت میں غالب گمان ہو کہ اصل مالکوں تک رقم نہیں پہنچے گی بلکہ انشورنس کمپنی خود رکھ لےگی (جیسا کہ ظاہر ہے) تو اسے اصل مالکوں کی طرف سے صدقہ کرناضروری ہے۔
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ اگر شر کاء باہمی رضامندی سے شرکت ختم کرنا چاہیں تو اس کی صورت یہ ہے کہ باقی ماندہ فیکٹری اور پریمیم کی رقم کے علاوہ سرمایہ کو کاروبار کا نقصان سمجھا جائے، جسے ہر شریک اپنے اپنےحصوں کے بقدر برداشت کرے۔ اس کے بعد موجودہ سرمایہ (جو کہ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق باقی ماندہ فیکٹری کی مالیت کے 6 کروڑ روپے کے ساتھ انشورنس میں جمع کرائے گئے پریمیم کے ایک کروڑ روپے ملا کر کل سات کروڑ روپے بنتے ہیں ) کو تمام شرکاء میں اُن کے اصل سرمایہ کے حصوں کے بقدر تقسیم کر دیا جائے یعنی آغا خانی شریک کو موجودہ سرمایہ 25 فیصد اور باقی تمام شرکاء کو 12.5 فیصد حساب کر کے دے دیا جائے۔
نیز یادر ہے کہ انشورنس کمپنی سے ملنے والے چودہ کروڑ میں سے (پریمیم کی رقم ایک کروڑ روپے نکال کر)تیرہ کروڑ روپے شرکاء کے لئے حلال نہیں ہیں، لہذا اسے موجودہ سرمایہ کا حصہ شمار نہیں کیا جائیگا، اسی بناء پر اگر کوئی شریک اس رقم سے (یعنی تیرہ کروڑ میں سے ) اپنے اصل سرمایہ میں حصہ کے بقدر رقم وصول کرلے تو اس کی وجہ سےموجودہ سرمایہ میں موجود اپنے حصہ سے دستبردار ہونے کا اعلان کرے اور اس کے لئے یہ طریقہ اختیار کرے کہ اصل سرمایہ میں سے کچھ مثلاً پانچ ہزار روپے یا فیکٹری کا خام مال یا تیار شدہ مال میں سے کچھ لے کر اپنے بقیہ حصہ سے صلح کرلے تو اُس کا حق موجودہ سرمایہ سے ختم ہو جائیگا اور دیگر شرکاء کے لئے اُس کے حصہ کو آپس میں تقسیم کرنا جائزہوگا۔
(3)۔۔۔ اگر آغا خانی شریک مذکورہ بالا طریقہ کار کے مطابق اپنے باقی فیکٹری میں حصہ سے دستبردار ہو تو فیکٹری کو دوسرے شر کاء میں تقسیم کر لینا جائز ہے۔
(4)۔۔۔ انشورنس کمپنی سے حاصل ہونے والی مذکورہ رقم سے دوبارہ فیکٹری چلائی جائے تو جمع کرائے گئےپریمیم کے بقدر آنے والا نفع تو حلال ہے لیکن بقیہ رقم کے مقابلے میں آنے والا نفع حلال نہیں جب تک کہ وہ رقم صد قہ نہ کردی جائے۔
الدر المختار - (4 / 283)
(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس ) من عليه ذلك ( من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله ) هذا مذهب أصحابنا لا نعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان ) و ( متى فعل ذلك ( سقط عنه المطالبة ) من أصحاب الديون (في العقبى ) مجتبى.
حاشية ابن عابدين - (4 / 283)
قوله ( جهل أربابها ) يشمل ورثتهم فلو علمهم لزمه الدفع إليهم لأن الدين صار حقهم ....قال محمد ابن الفضل من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برىء عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له اه..... قوله ( سقط عنه المطالبة الخ ) كأنه والله تعالى أعلم لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم ط.
بدائع الصنائع - (6 / 62)
إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا فلا شك أنه يجوزويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهماوالوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا لأن الوضيعة اسم الجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال- واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب