ہمارے مدرسے میں اجتماعی قربانی ہوتی ہے ، اس بارے میں درج ذیل مسائل کے جوابات عنایت فرما دیں:
1. ہم لوگوں سے0 900 روپے فی حصہ لیتے ہیں اور بیوپاری سے اس طرح معاہدہ کرتے ہیں کہ 8500 روپے فی حصہ آپ کو دینگے جس میں گائے لانا، عید تک دیکھ بھال ، چارہ وغیرہ اور کاٹنا بیو پاری کی ذمہ داری ہوتی ہے کیا یہ معاہدہ صحیح ہے ؟ اور باقی 500 فی حصہ ہم رکھتے ہیں، اس 500 روپے میں ہم جانوروں کا پانی ، بجلی کا خرچہ اور رسیدیں اور اشتہارچھپوانا اور اجتماعی قربانی میں جو طلباء وغیرہ خدمت کرتے ہیں ان کو وظیفہ دیتے ہیں ، کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟
2. اگر ان سب اخراجات کے بعد بھی کچھ رقم بچ جائے اوراس کو مدرسہ کے فنڈ (Fund) میں جمع کر دیا جائے (قربانی کرنے والوں سے اجازت لے کر (تو کیا اس کے لیے رسید پر کون سی عبارت لکھوائی جائے ؟
ایک ادارے کی رسید پر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے ( نوٹ : وصول شده رقم میں 25 فیصد قربانی سروس چار چیز (charges) ہیں ۔نیز ایک ادارے کی رسید پر یہ عبارت لکھی ہوئی ملی ، (تمام مصارف کے بعد تخمینی رقم سے اگر کچھ رہ جائے تو انتظامیہ حسب صوابدیدکسی بھی مصرف میں خرچ کر سکتے ہیں ۔ اگر تخمینی رقم وضع کرنے اور گائے کی خریداری کے بعد بھی میرے حصہ / حصوں میں سے کچھ رقم بچ جائےتو وہ مدرسہ میں بطور عطیہ جمع کر دی جائے۔
(1)۔۔۔اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے کو جو رسید فراہم کی گئی ہے، اس میں اگر تمام تخمینی اخراجات کا تذکرہ موجودہے، اور شریک ہونے والے کی طرف سے ان تمام اخراجات کی اجازت حاصل کرلی گئی ہے تو یہ معاہدہ درست ہے، بشر طیکہ معاہدہ میں کوئی ایسی جہالت نہ ہو جو جھگڑے کا سبب بن سکے۔
(2)۔۔۔ اس سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ بچ جانے والی رقم شر کاء کو واپس کر دی جائے، تاہم اگر ہر شریک کو فراہم کی جانےوالی رسید کے آخر میں ایسی عبارت درج کی گئی ہو، جس سے ادارے کو ایسی رقم عطیہ کرنے کا اختیار حاصل ہو جائے تو یہ بھی جائز ہے، اس سلسلے میں آپ اپنے ادارے کے افراد کی مشاورت سے کوئی بھی مناسب عبارت درج کر سکتے ہیں،جس کا ایک نمونہ حسب ذیل ہے:
"میں ادارہ کی انتظامیہ کو اس بات کا اختیار دیتا ہوں کہ قربانی کیلئے جانور کی خریداری سے لے کر گوشت کی تقسیم تک کے تمام مراحل کا انتظام کرے، اور تخمینی اخراجات کی جو ر قم نقل و حمل، چارہ کھلائی ، قصاب کی اجرت اور دیگرضروری انتظامات کیلئے درکار ہے، میرے حساب سے منہا کرلے، اور تخمینی اخراجات کے بعد اگر کچھ رقم بچ جائے، تودیانتداری کے ساتھ حسب صوابدید مدرسہ/مسجد میں عطیہ کر دے۔“مگر جب تک زبانی یا تحریری طور پر شر کاء سے اجازت حاصل نہ کی جائے، اس وقت تک بچ جانے والی رقم ہر شریک کوواپس کرنا ہی لازم ہے۔