کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:
آجکل عمو ماً رفاہی اداروں و مدارس کی جانب سے اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے ان کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ حصہ داروں کی جانب سے وکیل ہیں یا امین یا ضامن؟
بندہ کو مروجہ اجتماعی قربانی میں کچھ قباحتیں نظر آتی ہیں ، جو مندرجہ ذیل ہیں، امید ہے کہ مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں گے :
1. کچھ افراد محض پیسہ کمانے کی خاطر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرتے ہیں اور اسی لئےسستے سے سستا اور کمزور سے کمزور جانور خریدا جاتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو( حصہ دار ویسے ہی اپنے جانور دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے )
2. اب جو پیسہ بچ گیا وہ اصولاً کس کا ہوا حصہ دار کا یا ادارہ کا ؟
3. عموماً پیسے بچتے ہیں جو ادارہ والے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں، اس کے مالک کو اطلاع نہیں دی جاتی۔ (حالانکہ" لا يحل مال امرأمسلم الا بطيب نفس منہ" ارشاد نبوی ہے)
4. بسا اوقات حرام آمدنی والوں کا حصہ بھی ضم ہو جاتا ہے۔
5. ایک شخص کا حصہ گائے نمبر1میں دیا گیا پھر اس سے زیادہ اہم شخص کے آنے پر پہلےوالے کو اطلاع دیئے بغیر اس کا حصہ (مثلا) گائے نمبر 5 یا 6 میں کر دیا جاتا ہے (چونکہ گوشت لینے کا ٹائم احتیاطاً مؤخر کر کے لکھا جاتا ہے اس لئے کسی حصہ دار کواس تبدیلی کا گمان نہیں ہوتا ) ۔
6. کھال میں سب حصہ دار شریک ہیں اور کھال ان کی ملکیت ہے حالانکہ ادارہ والوں کی جانب سے تاثریہ دیا جاتا ہے کہ حصہ دار کا اس میں کوئی حق نہیں۔
7. حصہ کی قیمت تمام حصہ داروں سے ایک ہی وصول کی جاتی ہے جب کہ گوشت میں کافی فرق ہوتا ہے (مثلا ایک گائے کے حصہ داروں فی حصہ 10 کلو ملتا ہے جبکہ دوسری گائے کے حصہ داروں کوفی حصہ 8 کلوملتا ہے)۔
8. اداروں کے زیر ِانتظام اجتماعی قربانی عام ہو جانے کی وجہ سے لوگ اتنی بڑی اہم عبادت کو بنفس نفیس ادا کرنے سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔یہ تو ان قباحتوں کا ذکر ہوا جو عموماً پائی جاتی ہیں مزید براں مخصوص جگہوں پر اور بھی کافی بے احتیاطیاں نظر آتی ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا مندرجہ بالا چیزیں جن کو بندہ نے قباحت کانام دیا ہے واقعی یہ چیزیں قباحت بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں تو اجتماعی قربانی بزیرِ ا نتظام ادارہ یامدرسہ کی صحت مشکوک ہے یا غیر مشکوک ؟ امید ہے کہ دلائل و براہین کی روشنی میں کما حقہ وضاحت فرمائیں گے۔
دینی مدارس اور رفاہی اداروں کی جانب سے آجکل جو اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے اس میں ان کی حیثیت مجموعی طور پر حصہ داروں کی طرف سے وکیل کی ہوتی ہے اور ان پر اس معاملہ میں وکالت ہی کے احکام لاگو ہونگے ، اس اصولی تمہید کے بعد اجتماعی قربانی میں ہونے والی جن کو تا ہیوں کا آپ نےسوال میں ذکر کیا ہے اُن کے بارے میں شرعی حکم درج ذیل ہے:
(1،2،3)۔۔۔محض پیسہ کمانے کی خاطر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنا پھر اس مقصد کی تکمیل کیلئےسستا اور کمزور جانور خریدنا اور حصہ داروں کی بچ جانے والی رقم ان کو واپس کرنے کی بجائے بلا اجازت اپنے پاس رکھ لینا یہ سب امور شرعا ًنا جائز ہیں، اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والوں کو درج ذیل امور کااہتمام کرنا چاہئے:
1. حصہ داروں سے اجتماعی قربانی میں شریک ہونے سے پہلے بھی دریافت کر لیا جائے کہ وہ اپنےحصہ کی کھال ادارے کو دینے پر راضی ہیں یا نہیں ؟ اگر راضی ہوں تو کھال ادارہ خودر کھ سکتا ہے ورنہ جائز نہیں۔اس کی مزید تفصیل نمبر 6 کے تحت آرہی ہے۔
2. قربانی کا جانور خرید نے اور اس پر آنے والے تمام اخراجات کے بعد جور قم بچ جائے وہ حصہ داروں کو واپس کی جائے ، اس رقم کو ان کی اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھ لینا بالکل نا جائز ہے، ہاں اگر وہ خودہی خوشدلی سے باقی بچ جانے والی رقم ادارہ کو عطیہ کر دیں تو اس صورت میں یہ رقم لینا درست ہے۔
3. حصہ داروں کی رقم سے حتی الامکان فربہ اور صحت مند جانور خریدنے کی کوشش کی جائے، کیونکہ احادیث طیبہ میں اس کی ترغیب دی گئی ہے لہذا اس کا لحاظ رکھنا چاہئے، باقی پیسہ اپنے لئے یا ادارے کیلئےبچانے کی غرض سے سستا اور کمزور جانور خریدنا اور حصہ داروں کو نقصان پہنچا نا شرعاً جائز نہیں۔
(4)۔۔۔ قربانی کے جانور میں کسی کو شریک کرنے سے پہلے اس سے یہ پوچھنا ضروری نہیں کہ اس کی آمدنی حلال ہے یا حرام، بلکہ مسلمانوں کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہئے ،ہاں اگر قرائن سے کسی کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی کل یا اکثر آمدنی حرام ہے تو پھر اسے قربانی کے جانور میں شریک نہ کیا جائے ، ایسا ساتھی اگر اصرار کرے تو اس کو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی اور سے حلال رقم قرض لے کرقربانی کے حصہ کیلئے دیدے۔
(5)۔۔۔ایک گائے میں کسی کا حصہ متعین کر دینے کے بعد کسی دوسرے گائے میں یہ حصہ منتقل کرناجائز نہیں اور مؤکل یعنی حصہ دار کے حق میں یہ تبدیلی نافذ بھی نہیں ہوتی ، اس لئے کہ کسی جانور میں ایک مرتبہ حصہ مقرر ہونے کے بعد وکیل کو شرعاً اس بات کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اس میں کوئی تبدیلی اور تصرف کرے، چنانچہ حصہ متعین کرنے کے بعد اگر کوئی جانور ہلاک ہو گیا تو یہ نقصان انہی حصہ داروں کا ہوگاجن کے حصے اس جانور میں تھے ۔ لیکن اگر حصے متعین کرنے سے پہلے کوئی جانور ہلاک ہو گیا تو وہ اس وقت تک اجتماعی قربانی میں شریک ہونے والے تمام لوگوں کی طرف سے ہلاک سمجھا جائے گا اور ہر حصہ دار پر اس کے حصوں کے تناسب سے اس جانور کی قیمت لازم ہوگی ، پھر اس حاصل شدہ رقم سے ہلاک ہونےوالے جانور کا متبادل جانور خریدا جائے گا۔(1-5)
(6)۔۔۔اجتماعی قربانی کے جانور کی کھال بلا شبہ تمام شرکاء کی ملکیت ہے ادارہ کیلئے ان میں سے کسی کے حصہ کی کھال اس کی رضا مندی کے بغیر اپنے پاس رکھ لینا ہرگز جائز نہیں، البتہ اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والا ادارہ اگر حصہ داروں کو شریک کرتے وقت ہی ان سے یہ دریافت کر لے کہ وہ اپنے حصہ کی کھال ادارے کو دینے پر راضی ہیں یا نہیں اور پھر وہ ادارے کو اپنے حصہ کی کھال دینے پر رضامندی ظاہر کر دیں تو ادارہ کیلئے کھال رکھنا جائز ہے لیکن اگر وہ ادارے کو اپنے حصہ کی کھال نہ دینا چاہیں تو ان کے جانور کی کھال انہیں واپس کرنا ادارے پر لازم ہے ایسے افراد کیلئے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ جنس جانور میں یہ افراد شریک ہوں اس جانور کی کھال اس کے حصہ داروں کے حوالے کر دی جائے پھراگر بعض حصہ دار اپنے حصہ کی کھال ادارے کو دینا چاہیں تو اس کھال کو فروخت کر کے اپنے حصہ کی قیمت ادارے کو دے سکتے ہیں اور اگر ادارہ چاہے تو یہ صورت بھی اختیار کر سکتا ہے کہ اپنے تمام حصہ دار جواجتماعی قربانی میں شریک ہوتے وقت ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی وجہ سے ادارے کو کھال دینےپر راضی نہیں ہیں اُن کو جانوروں میں ایسے حصہ داروں کے ساتھ شریک نہ کرے جو ادارے کو اپنے حصہ کی کھال دینا چاہتے ہیں بلکہ ادارے کو کھال نہ دینے والے افراد کو یکجا کر دے مثلا اگر سات حصہ دار اپنےحصہ کی کھال ادارے کو نہ دینا چاہیں تو ان سات حصہ داروں کو ایک جانور میں شریک کر کے جانور کی کھال ان کے حوالے کر دے، اس صورت میں وہ حصہ دار جو ادارے کو اپنے حصہ کی کھال نہیں دیناچاہتے مشترک طور پر کسی بھی جانور میں جمع نہیں ہوں گے اور ایسا کرنے سے ادارہ کسی اضافی دشواری سے بھی بچ جائے گا۔
(7)۔۔۔تمام حصہ داروں سے حصوں کی مساوی قیمت وصول کرنے کے بعد اگر کسی جانور میں گوشت کچھ کم نکلے جیسا کہ عام طور پر جانوروں میں ہوتا ہے تو اس سے تو بچنا ممکن نہیں اور چونکہ مارکیٹ میں جانوروں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہر مرتبہ ایک جیسے جانور خرید ناممکن بھی نہیں اس لئےادارے پر شرعاً اس کی ذمہ داری بھی نہیں آتی ، تاہم چونکہ اس معاملہ کا مدار اجتماعی قربانی کرنے والےادارے کی دیانت و امانت پر ہے اس لئے ادارے کو حتی الامکان تمام حصہ داروں کیلئے صحتمند اور تندرست جانور خریدنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(8)۔۔۔یہ کہنا کہ "لوگ اجتماعی قربانی کی وجہ سے اس اہم عبادت کو بنفس نفیس ادا کرنے سےمحروم ہوتے جارہے ہیں "ان لوگوں کے بارے میں تو کسی حد تک درست ہے جن کے پاس خود قربانی کرنے کے لئے جگہ اور وسائل موجود ہیں لیکن وہ اس وجہ سے
کہ اجتماعی قربانی میں حصہ سستا پڑتا ہے یاکسی اور وجہ سے اس کا اہتمام نہیں کرتے، لیکن دوسرے بہت سے افراد کیلئے یہ بات درست نہیں بالخصوص ان صورتوں میں جو آگے آرہی ہیں:
1. گنجان آبادی والے شہروں اور علاقوں میں جہاں کی اکثر آبادی چھوٹے چھوٹے فلیٹس میں رہتی ہےوہاں انفرادی قربانی میں بہت سی دشواریاں ہوتی ہیں تو اگر ان کیلئے اجتماعی قربانی کا اہتمام نہ ہوتو ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اپنے ذمہ عائد ہونے والے اس واجب کی ادائیگی سے ہی قاصر رہیں اور کوتاہی کریں اور گناہ کےمرتکب ہوں۔
2. عوام کا ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جس پر قربانی تو واجب ہوتی ہے لیکن جانوروں کی قیمتوں کی گرانی اور محدود ذرائع آمدنی کی وجہ سے وہ اس فریضہ کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں اور اجتماعی قربانی میں شریک ہو کر یہ طبقہ بھی قدرے سہولت سےاپنا فریضہ ادا کر لیتا ہے۔
3. بعض لوگ جانور کی خریداری، اس کی دیکھ بھال اور پھر ذبح وغیرہ کی دشواریوں کی وجہ سےاس اہم عبادت کی ادائیگی سے پس و پیش کرتے ہیں اور ان کے بارے میں غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ اگران کے قرب و جوار میں اجتماعی قربانی کا اہتمام نہ ہو تو وہ اس فریضہ کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے ، اجتماعی قربانی میں شریک ہو کر یہ لوگ بھی اپنے اس فریضہ سے سبکدوش ہو جاتے ہیں، لہذا اجتماعی قربانی کوعلی الاطلاق " بنفس نفیس قربانی سے محرومی "سے تعبیر کرنا درست نہیں۔
(1-5)
شرح المجلة للأناسى (470/4)
لو وكل شخصان كل منهما على حدة واحداً بأن يشترى شيئاً فلا يهما قصدالوكيل واراد عند اشتراء ذلك الشي يكون له.
وفيه ايضاً (465/4)
ثم إن تقييد الشراء بكونه لنفسه يشير إلى انه ليس له أن يشتريه لمؤكل آخر.لأنه اذا لم يملك الشراء لنفسه فأولى أن لا يملك الشراء لغيره فلو اشتراه للمؤكل الثاني كان للأول.
وفيه أيضاً (462/4)
الوكيل بشراء شئى ا آخر لا ينفذ في حق المؤكل ويبقى على ذمة الوكيل.
وفيه ايضاً (482/4)
ليس للوكيل بالشراء أن يقيل البيع بدون اذن المؤكل وهذا بالإجماع.
وفيه ايضاً (458/4)
اذا قيد الوكالة بقيد فليس للوكيل ،مخالفته، فإن خالف لايكون شراءه نافذاعلى المؤكل ويبقى المال الذي اشترى عليه.
وفي المحيط البرهانی (81/15)
فالمذكور فى الكتب الظواهر أن الوكيل اذا خالف إن كان الخلاف من حيث الجنس لا ينفذ على الآمرو إن كان المأتى به أنفع من المأموربه.......وإن كان الخلاف من حيث الوصف والقدر لا من حيث الجنس إن كان المأتى به أنفع من المامور به ينفذ على الآمر ..... وإن كان المأتى به أضرمن المامور به لا ينفذ على الأمر.
وفى الهندية (306/5)
وان وكله بان يشترى له كبشا أقرن أعين للأضحية فاشترى كبشا أجم ليس أعين لا يلزم الآمر لأن هذا مما يرغب فيه الناس للأضحية فخالف ما أمر به.
وفي خلاصة الفتاوى (316/4)
أربعة نفر لكل واحد منهم شاة حبسوها في بيت فماتت واحدة ولا يدرى لمن هي؟ يباع هذه الأغنام جملة ويشترى بثمنها أربع شياه لكل واحد منهم شاةثم يوكل كل واحد منهم صاحبه يذبح كل واحد منها ويحلل كل واحدصاحبه ايضاً حتى يجوز عن الأضحية.