کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں ایک ادارہ 2008سےاجتماعی قربانی کر رہا ہے ۔ اور ہرسال اجتماعی قربانی کرنے والےحضرات جو رسیدشرکاء قربانی کو دیتے ہیں، اس میں یہ بات تحریر ہے کہ اجتماعی قربانی سے بچنے والی رقم کسی فلاحی مصرف میں خرچ کی جائے گی 2008 سے 2013 تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتار ہا، اور ہرسال اس مد سے بچنے والی رقم اب تک 25000 رو پے جمع ہیں ۔ 2014 اور 2015 میں لوگوں کو رسید نہیں دی گئی اور نہ ہی ان سے زبانی اجازت لینا یاد ہے ۔ 2014 اور 2015 میں بچنے والی رقم13000ہزار ہے جو جمع ہے اور پھر 2016 کی اجتماعی قربانی میں سب شرکاء سے زبانی اجازت لی ہے ۔ لیکن 2016 کی قربانی میں ادارے کے 25500 اضافی خرچ ہوئے ہیں جو شر کاء سے نہیں لئے گئے، ادارہ یہ رقم 25500 شرکاء سے یا سابقہ سالوں سے بچنے والی رقم سے لے سکتا ہےیا ادارہ یہ رقم اپنے منافع میں سے دے سکتا ہے ۔اور یہ اضافی رقم ان مد میں استعمال ہوئی ہے۔ ڈیکوریشن، لائٹ وغیرہ اور ٹینٹ وغیرہ جو جانوروں کے لئے لگایا گیا تھا ۔ 2008سے 2016 تک جتنی اجتماعی قربانی ہوئی اس کے اکثر شرکاءمتعین ہیں اور سب کی تفصیلات ہمارے کے پاس موجود ہے۔
صورت مسئولہ میں جن سالوں میں شرکا ءسے بچ جانے والی ر قم کو کسی فلاحی کام میں لگانے کی اجازت نہیں لی گئی تھی، ان سالوں میں اجتماعی قربانی کے بعد بچ جانے والی رقم تمام شرکاء کو ان کے حصوں کے مطابق واپس کرناضروری ہے، ان کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح 2014ء اور 2015 ء میں اجتماعی قربانی میں بچ جانے والی رقم سے 2016 ء میں اجتماعی قربانی پر ہونے والے اخراجات ادا نہیں کیے جاسکتے، کیونکہ یہ دونوں معاملات الگ الگ ہیں، البتہ اگر تمام سالوں کے شرکاء متعین ہوں، تو ان کو مکمل صورت حال اور بچ جانے والی رقم میں ان کا حصہ بتادیا جائے، اس کے بعد اگر وہ اجازت دیں تو2014 اور 2015 میں اجتماعی قربانی میں بچ جانے والی رقم سے 2016 ء میں اجتماعی قربانی پر ہونے والے اخراجات ادا کیے جاسکتے ہیں۔
مشكاة المصابيح (889/2)
وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألاتظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه.