Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


اجتماعی قربانی میں جانور کی تعیین کب کی جائے؟


سوال

ہمارا ایک ویلفیئر ادارہ ہے جس کے تحت ہم ہر سال وقف قربانی کرتے ہیں اس کا طریقہ کار ذیل میں لکھا جارہا ہے برائے کرم رہنمائی فرمائیں کہ یہ طریقہ شریعت کے مطابق ہے یا نہیں اگر صحیح نہیں تو صحیح طریقہ کیا ہے ؟

ہم نے فی گائے کی قیمت 65 ہزار مقرر کی ہے اور فی حصہ ساڑھے نو ہزار مقرر کیا ہے اب کچھ لوگ پوری گائے کی قیمت دیتے ہیں اور کچھ لوگ فی حصے کی قیمت۔جو لوگ مکمل گائے کی قیمت دیتے ہیں مثلا 65 ہزار ، اور ہم نے مثلا 15 بندوں سے پیسے جمع کئے یعنی نولا کھ 75 ہزار اور ہم نے اس میں گائے کی خریداری شروع کی تو کوئی گائے 50000 کے ملی کوئی ستر ہزار کی کوئی 45000 کی وہ کوئی پچھتر ہزار کی۔لیکن جب ہم نے پندرہ گائے لے لیں تو اوسطاً تمام گائے ہمیں 59000 کی پڑیں۔اور بقایا6000 جور قم بچ گئی وہ ہم نے کرایہ چارہ اور کٹائی وغیرہ کے لئے رکھ لئے تو کیا یہ طریقہ شرعاً درست ہے؟

اور اس میں دوسرا سوال یہ ہے کہ جو پندرہ جانور ہم نے خریدے اس وقت ہم نے یہ نیت نہیں کی کہ یہ فلاں کے لیے خریدا اور یہ فلاں کے لئے۔ بلکہ مجموعی طور پر 15 خرید لئے اور پھر ذبح کرتے وقت نیت کرتے رہے کہ یہ جو ذبح ہو رہا ہے یہ فلاں کا دوسرا فلاں کا تو کیا یہ طریقہ شرعاً درست ہے ؟اور جولوگ ہمیں حصہ دے رہے ہیں ہم ان کی طرف سے جانور خرید لیں اور بعد میں حصے کا تعین کریں اور جب ہم قربانی کر رہےہوں اس وقت ہم تعین کریں اور نیت کریں مثلا یہ جو جانور کٹ رہا ہے یہ فلاں سات افراد کا ہے تو کیا یہ شرعاً درست ہے ؟

جواب

(1)۔۔۔ اجتماعی قربانی کی سوال میں ذکر کردہ جو صورت درج ہے اس کے بارے میں گزارش ہے کہ قربانی کرنے والے اداروں کی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے اور یہ ادارے لوگوں سے جو رقم وصول کرتےہیں وہ ان کے پاس امانت ہوتی ہے ، اس لیے ادارے کی طرف سے جاری کی جانے والی رسید پر اگر درج ذیل عبارت درج کرلی جائے تو معاملہ اور زیادہ بے غبار ہو جائے گا اور اداروں کو واضح اختیار مل جائے گا ، وہ عبارت یہ ہے :

"میں ادارہ کی انتظامیہ کو اس بات کا اختیار دیتا ہوں کہ قربانی کے لیےجانور کی خریداری سے لے کر گوشت کی تقسیم تک تمام مراحل کا انتظام ادارہ کرے، اور تخمینی اخراجات کی رقم جو نقل و حمل ، چارہ کھلائی ، قصاب کی اجرت اور دیگر ضروری انتظامات کے لیے درکار ہے، میرے حساب سےمنہا کر لے "

البتہ اس صورت میں بھی انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر جانور کا حساب الگ رکھا جائے، جن حصہ داروں کے حصے میں کمزور جانور آئے یعنی کم قیمت والا، ان سے زیادہ قیمت وصول نہ کی جائے ، بلکہ اخراجات کے بعد ان کی بقیہ رقم ان کو واپس کی جائے۔ (البتہ اگر وہ خود ہی خوشدلی سے باقی بچ جانے والی رقم ادارہ کو عطیہ کر دیں تو اس صورت میں ادارے کے لیے یہ رقم لینا درست ہو گا)۔ اور جن کے حصے میں اعلی جانور آئے ان سے اس کے مطابق قیمت وصول کی جائے۔ تاکہ حساب برابرہو جائے اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔

(2،3)۔۔۔اصل تو یہ ہے کہ جس وقت جانور خریدا جائے اس وقت تعیین کی جائے کہ یہ جانورفلاں فلاں شخص کا ہے تا کہ خدا نخواستہ اگر قربانی سے پہلے جانور مر جائے تو معلوم ہو کہ کس کے حصہ میں مرا ہےاور اگر خریدتے وقت تعین نہیں کی تو بعد میں تعیین کر لینی چاہیے ۔ تاہم ذبح سے پہلے تعیین کرنا بہر حال ضروری ہے۔

الأشباه والنظائر - حنفي (29)
وأما الضحايا : فلا بد فيها من النية لكن عند الشراء لا عند الذبح.

الفتاوى الهندية (306/5)
اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم ولم يسم لكل واحد منهم شاة بعينهافضحوا بهما كذلك فالقياس أن لا يجوز، وفي الاستحسان يجوز . والله سبحانه وتعالى اعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2017/67 المصباح : QP:005