کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ہمارے مدرسہ میں اجتماعی قربانی کا انعقاد ہوتا ہے جس کی ترتیب یہ ہوتی ہے ، لوگ مدرسہ کی طرف سےاند ازاًطے کی ہوئی رقم ادا کرتے ہیں (جس میں کمی بیشی کا حساب کر لیا جاتا ہے ) اور مدرسہ والے جانور خریدتے ہیں اور عید سے تین دن قبل تقریباً جانوروں پر نمبر لگا کر متعین کر دیا جاتا ہے کہ یہ جانور فلاں، فلاں سب شرکاء کاہے، پھر اسی ترتیب سے نمبر لگنے اور سات شرکاء کے ایک جانور میں متعین ہونے کے بعد مذکورہ جانور بیمار ہو گیا،دوائی ڈاکٹر بلا کر لی، اور استعمال کی لیکن وہ عید کی رات مر گیا تو جلدی سے دوسرا جانور خرید لیا کہ ان شرکاء کو بعد میں بتادیں گے او رپھر انہیں خبر دیے بغیر ذبح بھی کر دیا۔اب جو جانور مر گیا ہے اور اس کی جگہ جو دوسرا جانور خریدا ہے اس کی قیمت کس کے ذمہ ہو گی ؟ مدرسہ والوں کے یا ان سات شرکاء کے یا تمام جانوروں کے شرکاء پر تقسیم کی جائے یا اس کے علاوہ ، قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
واضح رہے کہ اجتماعی قربانی میں مدرسہ یا کسی ارارہ کے منتظمین کی شرعی حیثیت وکیل کی ہوتی ہے، اور جو شخص قربانی کے لیے ان کو رقم دیتا ہے، اس کی حیثیت مؤکل کی ہوتی ہے، اس لئے مذکورہ مسئلہ میں وکالت کے احکام جاری ہونگے۔
صورت مسئولہ میں جو جانور بیمار ہوکر مرگیا تو اس کے مرنے سے ان سات اصحابِ حصص کی توکیل ختم نہیں ہوئی ، اس لئے کہ انہوں نے مدرسہ کی انتظامیہ کو وکیل بالأضحیہ بنایا تھا ، متعین جانور خرید کر قربانی کرنے کا وکیل نہیں بنایا تھا کہ اس کے مرنے سے تو کیل ختم ہوگی ہو، نہ ہی انہوں نے وکیل (انتظامیہ) کو وکالت سے معزول کیا تھا، اور نہ ہی ان کی توکیل کا مقصد قربانی کرانا پورا ہوا تھا، لہذا تو کیل ختم ہونے کی مذکورہ وجوہات میں سے چونکہ ایک وجہ بھی نہیں پائی گئی اس لئے اس سال ایام نحر میں موکلین کی طرف سے توکیل باقی تھی (کما في العبارة الأولي... الي الرابعة ) اوروکیل (انتظامیہ ) نے موکلین ( ان سات افراد) ہی کی مصلحت کے پیش ِنظر ان کے مقصد قربانی کی ادائیگی کو پورا کرنے کے لئے جو دوسرا جانور خریدا ہے، وہ اس توکیل کے تحت خریدا ہے، اس لئے اس جانور پر قربانی کرنے سے ان ساتوں افراد کی قربانی ادا ہوگئی ہے، لیکن اس جانور کی قیمت صرف ان سات افراد سےنہیں لی جائیگی بلکہ اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے تمام افراد پرڈالی جائیگی۔ (بشر طیکہ انتظامیہ نے تمام معاملات امانت و دیانت سے انجام دیئے ہوں، اور ان سے اختیاری طور پر کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہوئی ہو، جس سے ان پر ضمان واجب ہو جاتا ہو)
1. المبسوط للسرخسي (19/ 38)
قال رضي الله عنه : الأصل في هذا الباب أن الوكيل متى قدر على تحصيل مقصود الموكل بما سمى له جاز التوكيل، وإلا فلا؛ لأن الوكالةغير مقصودة لعينها، بل المقصود شيء آخر، يحصل للموكل، فإذا قدر على تحصيل مقصوده بما سمي له كان هذا عقدا مقيدا للمقصود، فصح وإلافلا.... ثم الوكالة عقد مبني على التوسع ....... والمقصود بها الرفق بالناس.
2. الدر المختار (538/5)
(وينعزل الوكيل) بلا عزل (بنهاية) الشيء (الموكل فيه) (كأن وكله بقبض دين فقبضه) بنفسه (أو) وكله (بنكاح فزوجه)
3. الفقه الإسلامي وأدلته (519/4)
تنتهي الوكالة بأحد الأمور التالية :(۱)
ا - انتهاء الغرض من الوكالة بأن يتم تنفيذ التصرف الذي وكل فيه الوكيل، إذ يصبح العقد غير ذي موضوع.
4. المجموع شرح المهذب (14/ 106)
وما دام التوكيل أو الاذن القصد منه أداء الفعل فأداه فقد تحقق الغرض من الوكالة أو النيابة.
5. الفتاوى الهندية (3/ 577)
وَلَوْ وَكَّلَهُ بِشِرَاءِ الْأَضْحِيَّةِ يَتَقَيَّدُ بِأَيَّامِ النَّحْرِ، وَبِشِرَاءِ الْفَحْمِ وَالْحَمْدِ بِوَقْتِهِ مِنْ السَّنَةِ الْأُولَى، حَتَّى لَوْ اشْتَرَاهُ في السَّنَةِ الثَّانِيَةِ فِي وَقْتِهِ لَا يَجُوزُ.