اگر اجتماعی قربانی کے شرکاء میں سے ایک شریک کی آمدنی حرام مال سے ہو ، قربانی ہو جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ایک حرام آمدنی والےنے شرکت کی تھی، تو شرع شریف کیا کہتی ہے ؟ اور دیگر شرکاءکی قربانی درست ہوئی ہے یا نہیں ؟برائے کرم دلائل شرعیہ و اسلامی قوانین کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
قربانی کے جانور میں اول تو ایسے شخص کو شریک نہیں کرنا چاہیے جس کی آمدنی حرام ہو ، اور اگر کوئی ایسا شخص دوسرے شرکاء کی لاعلمی میں شریک ہو گیا اور قربانی بھی کر لی گئی تو بعض علماء کے نزدیک کسی شریک کی بھی قربانی درست نہیں ہوئی، جبکہ بعض علماء کے یہاں دوسرے شرکاء کی قربانی درست ہو جائے گی، اور حرام آمدنی والے شریک کی قربانی بھی ذمہ سے اتر جائے گی لیکن اس کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا۔ لہذا ایسی صورت میں احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے قول پر عمل کیا جائے، لیکن اگر شر کا ء زیادہ مال دارنہ ہوں اور دوبارہ قربانی کرنے میں مالی اعتبار سے دشواری ہو تو دوسرے علماء کے قول پر بھی عمل کرنے کی گنجائش ہے، یعنی قربانی ادا ہو گئی البتہ حرام مال والے کو ثواب نہیں ہو گا۔ (ماخذہ تبویب 1079/88-32/1355)
حاشية ابن عابدين (2/ 291)
مطلب في التصدق من المال الحرام :(قوله: وفي شرح الوهبانية إلخ) فيه دفع لماعسى يورد على قول المتن فتجب الزكاة فيه من أنه مال خبيث فكيف يزكي منه، لكن علمت أنه لا تجب زكاته إلا إذا استبرأ من صاحبه أو صالح عنه فيزول خبثه، نعم لو أخرج زكاة المال الحلال من مال حرام ذكر في الوهبانية أنه يجزئ عند البعض، ونقل القولين في القنية.واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم