کچھ لوگ اجتماعی قربانی کیلئے لوگوں سے پیسے جمع کرتے ہیں اور ہر وہ شخص جو ان کے پاس قربانی کا حصہ ڈالتا ہے وہ ایک مخصوص رقم اداکرتا ہے مثلاً 7800 روپے، یعنی حصہ کی ایک قیمت متعین ہے اتنی ہی قیمت ہر حصہ دار سے وصول کی جاتی ہے اب رقم جمع کرنےکے بعد یہ لوگ (انتظامیہ) لاٹ کے حساب سے جانور خریدتے ہیں، خریداری کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ:
(الف) مثلاً دس بڑے جانوروں کا اکھٹے سودا طے کیا جاتا ہے اس طور پر کہ ہر ایک گائے وغیرہ کی الگ الگ قیمت طے نہیں ہوتی بلکہ
دس جانوروں کے مثلاً چار لاکھ روپے طے کر لیئے ، اس میں موٹے اور درمیانے سب جانور شامل ہوتے ہیں۔
(ب) اس طرح دوبارہ منڈی جا کر دوسری لاٹ خرید لیتے ہیں ، اس لاٹ کا ریٹ عموماً پہلی لاٹ سے مختلف ہوتا ہے ، اس لاٹ کے جانوروں کو پہلی لاٹ کے جانوروں کے ساتھ خلط کر دیا جاتا ہے، اسی طرح تیسری اور چوتھی لاٹ خریدنے کی صورت میں ہوتا ہے ، اور سب جانوروں کو بلا امتیاز اکھٹے رکھا جاتا ہے ان کے چارے اور ذبح کا انتظام بھی کیا جاتا ہے، واضح رہے کہ تمام افراد سےیکساں رقم وصول کی جاتی ہے اوررقم بچ جانے کی صورت میں انتظامیہ واپس نہیں کرتی، اور لوگوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ بچ جانے والی رقم واپس نہیں ہو گی۔ جانور کی تعین کے لئے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لاٹ کے جانور خریدنے کے بعد حصہ دار افرادکے لئے جانوروں کی تعیین کر دی جاتی ہے اور کبھی آخری دن تعیین کی جاتی ہے اس تفصیل کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیے کہ:
1) تمام لوگوں سے یکساں پیسے لینے کا کیا حکم ہے جبکہ سب جانور ایک جیسے نہیں ہوتے اب وہ لوگ جن کا حصہ ہلکے جانور میں لگتاہے ان کو کم گوشت ملتا ہے اور جن کا بھاری جانور میں لگتا ہے تو ان کو زیادہ گوشت ملتا ہے جب کہ قربانی کے حصے کی قیمت سب سےبرابر وصول کی گئی ہے ؟
2) ہمارے لئے دس جانوروں کی لاٹ کی مجموعی قیمت طے کر لینا کیسا ہے جبکہ ہر جانور کی قیمت الگ الگ طے نہیں ہوتی ۔
3) مختلف لاٹوں کے جانوروں کو بلا تمیز ملادینا کیسا ہے ؟
4) جانوروں کی حصہ دار افراد کے اعتبار سے فوری تعیین کرناضروری ہے یاذ بح کرنے سے پہلے تک کر سکتے ہیں ؟
5) انتظامیہ کے لئے بچ جانے والی رقم کو اپنے پاس رکھنا کیسا ہے ؟
اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے ادارے یا شخص کی حیثیت شرعاً حصہ داروں کی طرف سے وکیل کی ہوتی ہے،اور ان پر اس معاملہ میں وکیل ہی کے احکام لاگو ہونگے ، اس اصولی تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
(1)۔۔۔ تمام حصہ داروں سے حصوں کی مساوی قیمت وصول کرنے کے بعد اگر جانوروں کے وزن میں معمولی فرق ہو جیسا کہ عام طور پر جانوروں میں ہوتا ہے تو اس سے تو بچنا ممکن نہیں، اور چونکہ مارکیٹ میں جانوروں کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہر مرتبہ ایک جیسے جانور خرید ناممکن بھی نہیں ، اس لئے ادارے پر شرعاً اس کی ذمہ داری بھی نہیں آتی ، تاہم چونکہ اس معاملہ کا مدار ادارے کی امانت ودیانت پر ہے اس لئے ادارے کو حتی الامکان تمام حصہ داروں کے لئے یکساں طور پر صحتمند اور تندرست جانور خریدنے کی کوشش کرنی چاہئے، احادیث مبارکہ میں بھی فربہ اورصحتمند جانور کی قربانی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے لہذا اس کا خاص لحاظ رکھنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ اپنے جاننے والے کےلئے عمدہ جانور متعین کر دیئے جائیں اور دوسروں کے لئے ہلکے جانور کہ ایسا کرناخیانت میں داخل ہے (مأخذہ التبويب:76/854) )1(
(2)۔۔۔ چونکہ مذکورہ صورت میں ہر ہر جانور کی الگ بیع نہیں ہوتی بلکہ ایک ہی عقد میں دس جانوروں کی اکھٹی بیع ہو جاتی ہے ، تو دس جانوروں کا مجموعہ مبیع ہے جو کہ سامنے مشار الیہ اور متعین ہوتا ہے، اور اس مجموعہ کا ثمن بھی معلوم ہوتا ہے، لہذا دس جانوروں کی لاٹ کی مجموعی قیمت طے کر کے خریدنا جائز ہے اگرچہ ہر ہر جانور کی قیمت الگ الگ طےنہ کی گئی ہو۔(2)
(3)۔۔۔ واضح رہے کہ اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے شرکاء کی طرف سے عرفاً پیسوں اور جانوروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کی اجازت ہوتی ہے اور خلط کے بعد ان جانوروں میں تمام شرکاء کی شرکت ملک قائم ہو جاتی ہے، اور جب تک اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں کے حصے متعین نہیں کیئے جاتے اُس وقت تک جو بھی جانورخریدے جاتے ہیں ان میں تمام شرکاء کا حصہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حصے متعین کرنے سے پہلے اگر کوئی جانور ہلاک ہو گیا تو اس وقت اجتماعی قربانی میں شریک ہونے والے تمام لوگوں کی طرف سے ہلاک سمجھا جائے گا اور ہر حصہ دار پر اس کے حصہ کے تناسب سے اس جانور کی قیمت لازم ہوگی ، پھر اس حاصل شدہ رقم سے ہلاک ہونے والےجانور کا متبادل جانور خریدا جائے گا، لیکن اگر جانور متعین ہو جانے کے بعد کوئی جانور ہلاک ہو جائے تو یہ نقصان انہی حصہ داروں کا ہو گا جن کے حصے اس جانور میں تھے بشر طیکہ اس جانور کے ہلاک ہونے میں انتظامیہ کی غفلت اور کوتاہی کا دخل نہ ہو، ورنہ انتظامیہ ذمہ دار ہوگی لہذا گراجتماعی قربانی کے شرکاء کے لئے خریدے ہوئے مختلف لاٹوں کےجانوروں کو بلا تمیز ملاد یا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (التبویب بتصرف 76/854) (3)
(4)۔۔۔ جانوروں کی حصہ دار افراد کے اعتبار سے فوری تعیین ضروری نہیں ہے،ذبح کرنے سے پہلے پہلے انتظامیہ اپنی سہولت اور آسانی کے ساتھ کسی وقت تک بھی حصوں کی تعین کر سکتی ہیں۔
لیکن یادر ہے کہ ادارہ پر لازم ہے کہ وہ حصہ دار افراد میں بلا امتیاز جانوروں کی تعین کرے، کسی جاننے والے کاحصہ فربہ اور بھاری جانور میں اور نہ جاننے والے کا حصہ ہلکے جانور میں رکھنا جائز نہیں کیونکہ ادارہ تمام شرکاء کی طرف سے وکیل ہے اور وکیل امین ہوتا ہے ، اس کے لئے اس طرح تفریق کر ناامانت ودیانت کے خلاف ہے۔(4)
(1)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3 / 574)
المادة (1468) - (يلزم أن يكون الموكل به معلوما علما يمكن معه إيفاء الوكالة على موجب الفقرة الأخيرة من المادة (1459) وذلك بأن يبين الموكل جنس ما يريد أن يشتري له، وإن كان لجنسه أنواع متفاوتة فلا يكفي بيان الجنس فقط. بل يلزم أن يبين أيضا نوعه أو ثمنه فإن لم يبين جنسه أو بينه لكن كانت له أنواع متفاوتة ولم يعين نوعه أو ثمنه فلا تصح الوكالة إلا أن يوكل توكيلا عاما. مثلا لو وكل أحد غيره بقوله اشتر لي فرسا تصح الوكالة وإذا أراد أن يوكله لشراء قماش للبس فيلزمه أن يبين جنسه بأن يقول : حرير أو قماش قطن ونوعه بقوله : هندي أو شامي، أو ثمنه، بقوله على أن
يكون الثوب منه بكذا فإن لم يبين جنسه بأن قال: اشتر لي دابة، أو قماشا، أو حريرا،ولم يبين نوعه فلا تصح الوكالة. لكن لو قال: اشتر لي قماشا للبس أو حريرا من أي جنس ونوع كان. فذلك مفوض إلى رأيك أنت الوكالة عامة وللوكيل أن يشتري من أي نوع وجنس شاء .
وفيه ايضا (3 / 584)
المادة (1478) لا يلزم بيان وصف الموكل به.المادة (1478) - (لا يلزم بيان وصف الموكل به بقوله مثلا: أعلى أو أدنى أو أوسط ولكن يلزم أن يكون وصف الموكل به موافقا لحال الموكل مثلا لو وكل المكاري أحداباشتراء دابة له. فليس للوكيل أن يشتري بعشرين ألف درهم فرسا بجديا وإن اشترى لايكون نافذا في حق الموكل. يعني لا يكون ذلك الفرس مشترى للموكل وإنما يبقى للوكيل يلزم استحسانا بيان وصف الموكل به لأجل صحة الوكالة يعني جهالة الصفةلیست مفسدة للوكالة؛ لأن الوكالة لما كانت استعانة ومبينة على التوسعة وفي اشتراط الوصف بعض الحرج فقد دفع ذلك انظر المادة (17) (البحر) ويكون وصف الموكل به معلوما بدلالة حال الموكل، وكذا أي تصح إذا سمى نوع الدابة بأن قال حمارا: يصح التوكيل بشراء الحمار وإن لم يسم الثمن؛ لأن الجنس صار معلوما بالتسمية وإنما بقيت الجهالة في الوصف فتصح الوكالة بدون تسمية الثمن. وإن كانت الحمير أنواعا منهاللركوب ومنها للحمل فإن هذا اختلاف في الوصف وذلك لايضر مع أن ذلك يصيرمعلوما حال الموكل( تكملة رد المحتار) . مثلا لا يلزم بيان الوصف بقوله: أعلى، أوأوسط، أو أدنى، إلا أنه إذا لم يبين وصف الموكل به تصح الوكالة. ويلزم أن يكون وصف الموكل به موافقا لحال الموكل لأن الوكالة مقيدة بحال الموكل دلالة. وإذا وجددليل التقييد نصا أو دلالة تخرج من الإطلاق وتجري على التقييد. انظر المادة (64)
بدائع الصنائع، دار الكتب العلمية (5 / 80)
(وأما) الذي يرجع إلى الأضحية فالمستحب أن يكون أسمنها وأحسنها وأعظمها لأنهامطية الآخرة قال - عليه الصلاة والسلام - عظموا ضحاياكم فإنها على الصراط مطاياكم ومهما كانت المطلية أعظم وأسمن كانت على الجواز على الصراط أقدر،وأفضل الشاء أن يكون كبشا أملح أقرن موجوءا؛ لما روى جابر – رضي الله عنه –أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أملحين أقرنين موجوء ين عظيمين سمينين.
(2)
الدر المختار (4 / 529)
(وشرط لصحته معرفة قدر) مبيع وثمن ووصف لمن كمصري أو دمشقي. (غيرمشار إليه (لا) يشترط ذلك في مشار إليه لنفي الجهالة بالإشارة ما لم يكن ربوياقوبل بجنسه.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 530)
قوله: لا يشترط ذلك في مشار إليه :قال في البحر وقوله غير مشار إليه قيد فيهما؛لأن المشار إليه مبيعا كان أو ثمنا لا يحتاج إلى معرفة قدره، ووصفه فلو قال: بعتك هذه الصبرة من الحنطة أو هذه الكورجة من الأرز والشاشات: وهي مجهولة العدد بهذه الدراهم التي في يدك وهي مرئية له فقبل جاز، ولزم؛ لأن الباقي جهالة الوصف يعني القدر، وهو لا يضر إذ لا يمنع من التسليم والتسلم اهـ.قوله: ما لم يكن أي المشار إليه ربويا قوبل بجنسه أي وبيع مجازفة مثل بعتك هذه الصبرة من الحنطة بهذه الصبرة. قال: في البحر فإنه لا يصح لاحتمال الربا واحتماله مانع كحقيقته.
(3)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3 / 15)
المادة (1060) - (شركة الملك هي كون الشيء مشتركا بين أكثر من واحد أ ومخصوصا بهم بسبب من أسباب التملك كالاشتراء والاتهاب وقبول الوصية والتوارث .تخلف، أ واختلاط الأموال يعني بخلط الأموال بعضها ببعض بصورة لا تكون قابلة للتمييزوالتفريق أو باختلاط الأموال بتلك الصورة بعضها ببعض. مثلا: لو اشترى اثنان مالاأو وهبه أحد لهما أو أوصى به وقيلا أو ورث اثنان مالا فيكون ذلك المال مشتركابينهما ويكونان ذوي نصيب في ذلك المال ومتشاركين فيه ويكون كل منهما شريك الآخر فيه. كذلك إذا خلط اثنان ذخيرتهما بعضها ببعض أو اختلطت ذخيرتهماببعضها بانخراق عدولهما فتصير هذه الذخيرة المخلوطة أو المختلطة مالا مشتركا بين
الاثنين والخلط يكون على ثلاثة أنواع الأول: أن يخلط الطرفان بالاتفاق أو يخلط أحدهما بإذن الآخر أو يخلط أجنبي بإذنهما.الثاني: أن يخلط أحدهما المال بدون إذن الآخر.الثالث: أن يخلط أجنبي المال بدون إذنهما. ففي الصورة الأولى تحصل شركة الملاك، وأما في الصورتين الثانية والثالثة فلاتحصل شركة الملك ويكون المخلوط مالا للخالط ويضمن حصة الأخر (الطحطاوي)
(4)
درر الحكام شرح مجلة الاحكام (3 / 599)
المادة (1487) وكل شخصان كل منهما على حدة أحدا على أن يشتري شيئا.المادة (1487) - لو وكل شخصان كل منهما على حدة أحدا على أن يشتري شيئافلأيهما قصد الوكيل وأراد عند اشترائه ذلك الشيء يكون (له) . لو وكل شخصان كل منهما على حدة أحدا بشراء شيء غير معين فلأيهما قصد الوكيل وأراد عند اشترائه فيكون قد اشترى له؛ لأن الحكم في شيء يكون بحسب المقصد منه. وذكر الشيء هنامنكرا إشارة إلى أنه غير معين. أما إذا كان ذلك الشيء معينا فقد ذكر حكمه في شرح المادة (1485) .