Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


اجتماعی قربانی کرنے والے کاایامِ قربانی میں قربانی کرنابھول جانا


سوال

درج ذیل مسائل میں رہنمائی درکار ہے:

کچھ لوگ ایک ادارہ کے لئے قربانی کی رقم جمع کرتے ہیں کہ قربانی کسی غریب علاقہ میں کی جائےتا کہ وہاں کے غریب مسلمانوں کو عید کے دن قربانی کا گوشت ملے، اور ادارہ کا فائدہ یہ کہ چمڑا فروخت کر کے اس کی قیمت سے ادارہ فائدہ اٹھائے ۔ اس سال ایک آدمی کو چند حضرات نے رقم دی ، وہ بالکل بھول گیا اور قربانی کے ایام گزر گئے ، اب اس رقم کا کیا کیاجائے؟

1. ان تمام لوگوں کو جنہوں نے قربانی کے لئے رقمیں دی ہیں،رقم واپس کرنا ضروری ہے یا وہ و کیل ان کی طرف سے خود ہی صدقہ کردے؟

2. بعض حضرات کے نام تو معلوم ہیں لیکن ان سے کوئی تعارف نہیں کہ وہ کہاں رہتے ہیں ،نہ ان سے ملاقات کی کوئی صورت ہے ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

3. جن حضرات کے نام اور پتے معلوم ہیں ،ان کو رقم واپس کرنے میں فتنہ ولڑائی کا اندیشہ ہے، کہ وہ حضرات و کیل کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جا ئیں گے، اسی طرح آئندہ سال ادارہ کا بھی نقصان ہے، اس صورت میں کیا وکیل خود ہی صدقہ کردے تو جائزہے؟

4. اگر وکیل کے لئے اس رقم کا صدقہ کرنا جائز ہے تو کیا بڑے جانور کے ایک حصہ کی رقم صدقہ کرنا کافی ہے یا پوری بکری کی ر قم صدقہ کرنی ہوگی ؟

جواب

(1)۔۔۔صورت مسئولہ میں جن لوگوں نے رقم دی تھی اب ان سب کو رقم واپس کرنا ضر وری ہے کیونکہ مذکورہ آدمی رقم دینے والوں کی طرف سے صرف قربانی کرنے کا وکیل تھا قربانی کی رقم صدقہ کرنے کا وکیل نہیں تھا لہذا قربانی کے ایام گزر جانے کے بعد وکالت ختم ہوگئی لہذا اب موکل کو اس کی رقم واپس کرنا ضروری ہے اور موکل کے ذمہ اب درمیانے درجے کے بکرے یا دنبہ کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے لیکن اس صدقہ کا سبب چونکہ وکیل ( یعنی مذکورہ آدمی )ہے اس لئے درمیانے درجے کے بکرے کی قیمت اگر قربانی کے لئے دی ہوئی رقم سے زیادہ ہو تو اس آدمی کے ذمہ زائد رقم ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ ( عبارت نمبر :1،2،3)

(2)۔۔۔کسی بھی طریقہ سے اولاً حصہ داروں کو پوری صورتحال سے مطلع کر دیا جائے ،صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد ان کی صریح اجازت سے ان کی طرف سے درمیانے درجے کے بکرے کی قیمت صدقہ کر دینا جائز ہوگا،لیکن اگر مکمل کوشش کے باوجود حصہ داروں سے رابطہ نہ ہو سکے تو درمیانے درجہ کے بکرے کی قیمت اس نیت سے ان کی طرف سے صدقہ کر دینے کی گنجائش ہے کہ اگر کبھی ان کو اس صورتحال کا علم ہو جائے اور وہ آپ کے صدقہ پر راضی نہ ہو بلکہ اپنی رقم کا مطالبہ کریں تو آپ کے ذمہ ان کی رقم ان کو واپس کرناضروری ہوگا۔ (ماخذہ: امداد المفتین ص874سوال نمبر 773، نیز عبارت نمبر 4،5)

(3) ۔۔۔ قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کرنے کی وجہ سے چونکہ سابقہ وکالت ختم ہو گئی ہے اس لئے حصہ داروں سے رابطہ کر ناممکن ہونے کی صورت میں ان کی صریح اجازت کے بغیر ان کی رقم صدقہ کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اپنےبھول کا عذر مناسب انداز میں حکمت و مصلحت کے بیان کر دیا جائے۔

(4)۔۔۔او پر اس کا جواب آچکا ہے کہ اولاً وکیل کے لئے حصہ داروں کی رقم صدقہ کرنا جائز نہیں ہے بلکہ حصہ داروں ہی کو پہنچانا ضروری ہے، البتہ ان کی صریح اجازت کے بعد یا ان کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکنےکی صورت میں درمیانے درجے کے بکرے کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے صرف حصہ کی رقم صدقہ کرنا کا فی نہیں ہے۔(دیکھئے: امداد الا حکا م : 2 / 274، احسن الفتاوی : 7 / 480، اور عبارت نمبر 6)

1. في الدر المختار (1/ 333)
شرى أضحية وامــررجــلابـذبـحـها فقال تركت التسمية عمد الزمه قيمتها ليشترى الآمر بها الاخرى ويضحى .... لو كان ايام النحر باقيةوالاتصدق بقيمتها على الفقراء خانية.

2. في در الحكام فى شرح مجلة الاحكام ( 3 / 644)
اذاخالف الـو كـيــل مــوكله ينعزل عزلا ضمنيا، مثلا لو وكله الموكل بشراءمال بعشر ذهباب فاشتراه بخمسين ريالا محيديا او بعروض انعزل الوكيل ويبقى المال المشترى له.

3. وفيه ايضا(3 / 592)
اذاو كــل احــد آخر بشراء شيء لازم لموسم معين تصرف الوكالة لذلك الموسم ايضاء مثلالو وكل احد آخر فى موسم الربيع على اشتراء جبة شاليةيكون قدو كله لاشتراء جبة على ان يستعملها في هذا الصيف فاذا اشتـراهـا الـوكـيــل بـعـد مـرورمـوسـم الصيف او في ربيع السنة الآتيةلا ينفذ اشراءه في حق الموكل وتبقى الجبة للوكيل -اذا وكل احد آخر لشراء شيء لازم لموسم معين تصرف الوكالة بالشراءلذلك الموسم دلالة...

4. في الدر المختار (4 / 283)
( عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس ) من عليه ذلك ( من معرفتهم فــعــليــه الـتــصـــدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله ) هذا مذهب أصحـابـنـا لا تـعـلـم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيهااعتبارا للديون بالأعيان ( و ) متى فعل ذلك ( سقط عنه المطالبة ) من
أصحاب الديون ( في العقبي ) مجتبى.

5. وفى الشامية
قوله ( فعليه التصدق بقدرها من ماله) أى الخاص به أو المتحصل من المظالم اه ط وهذا إن كان له مال
وفي الفصول العلامة: لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى لا يؤاخذ به في الآخرة إذاكان الدين ثمن متاع أو قرضا وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة.قوله ( كن في يده لا يعلم مستحقيها ) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، إن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا قوله ( سقط عنه المطالبة الخ ) كأنه والله تعالى أعلم لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم ط.

6. وفى الدر المختار (1 / 321)
و تصدق بقيمتها غنی شراها أولا لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمةقيمة شاة تجزى فيها
(قوله:فالمراد بالقيمة الخ) بيان لما اجمله المصنف لان قوله تصدق بقيمتها ظاهر فيما اذا اشتراهالان قیمتها تعلم ، اما اذالم يشترها فما معنى انه يتصدق بقيمتهــافــانها غير متعينة ، فبين ان المراد اذالم يشترها قيمة شاةتجزى في الاضحية كمافى الخلاصة وغيرها، قال القهستاني او قيمة شاةوسط کمافی الزاهدى والنظم وغيرهما والله سبحانه وتعالى اعلم.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1612/21 المصباح : QP:011
12 2