کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں:
کہ کسی ادارہ یا مدرسہ کا کوئی فرد قربانی کا جانور ادارہ کی مقرر کر دہ قیمت سے کم پر خرید کر ادارہ کو اس کی مقرر کردہ قیمت پر فروخت کر دیتا ہے۔مثلا (46000) چھیالیس ہزار روپے جانور کی قیمت ہے اور اسی حساب سے فی حصہ کی رقم لی جاتی ہے مذکورہ شخص 4300 یا 44000کا جانور خرید کر ادارہ یامدرسہ کو46000کا فروخت کردیتا ہے۔
آیا کہ ادارہ یا مدرسہ کے ذمہ دار یا ادارہ یامدرسہ کاےکسی بھی فرد کا اس طرح سے جانور خرید کر ادارہ کو فروخت کرنا شرعاً کیسا ہے ؟مہربانی فرما کر جلدی جواب عنایت فرمائیں۔
واضح رہے کہ ادارے کی طرف سے اس کو یہ ذمہ داری دی گئی ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیسوں سے جانور خرید کر ادارے
کو بیچ دے، نیز ادارے کے مہتم کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ذمہ دار نے جانور کم قیمت پر خرید کر زیادہ پر ادارے کو بیچ رہا ہے ۔
تنقیح: فون پر سائل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص ادارے کا ملازم ہے ، تدریس وغیرہ کی ذمہ داری ہے ۔ جانوروں کی خرید و فروخت ملازمت کے اوقات میں نہیں کرتا، بلکہ الگ سےوقت نکالتا ہے۔ اگر کبھی ملازمت کے اوقات میں بھی خرید و فروخت کا معاملہ کر نا پڑےتو اس میں بھی ادارے کے مہتمم کی طرف سے اس خرید و فروخت کی اجازت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ لوگ ادارے پر اعتماد کر کے اجتماعی قربانی میں شریک ہوتے ہیں اور قربانی کیلئے جور قم وہ جمع کراتے ہیں، اس سے مقصود جانور خرید کر قربانی کرنا ہوتا ہے، ان کی طرف سے تجارت کی اجازت نہیں ہوتی، نیزان کے پیسے ادارے کی انتظامیہ کے پاس امانت کے طور پر ہوتے ہیں، لہذا ادارےکی انتظامیہ کے ذمہ لازم ہے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ ان امانتوں کو استعمال کریں۔
لہذا صورت مسئولہ میں ادارے ہی کے ملازم کا کم قیمت پر قربانی کا جانور خرید کر اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں کیلئے ادارے کو زیادہ قیمت پر فروخت کرنا واضح طور پر امانت و دیانت کے خلاف ہے، کیونکہ جانور کی خریداری میں درمیان میں جتنے زیادہ واسطے ہونگے، جانور اتنا ہی مہنگا پڑے گا، نیز اس طرح کرنے سے قربانی جیسی عظیم عبادت کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانا لازم آتا ہے اور یہ شرعاًمذ موم ہے، لہذا ایسا کرنا ادارہ کیلئے یا اس کی اجازت دینا جائز نہیں ہے، بلکہ ادارے کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ ان واسطوں کے بغیر بذاتِ خود منڈی سے جانورخریدیں ، اِس سے جانور سستا ملے گا، جو کہ امانت و دیانت کے عین مطابق ہے ، البتہ اجتماعی قربانی کیلئے کام کرنےوالے افراد کو اجتماعی قربانی کی رقم سے محنت اور خدمت کرنے والوں کو عرف کی حد تک مناسب حق الخدمت یاانعام دیا جاسکتا ہے، لیکن اس کیلئے بھی حصہ داروں سے پہلے ہی سے اجازت لے لینا ضروری ہے۔
لما في صحيح البخاري (180/3)
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن أبي سهيل نافع بن مالك بن أبي عامر،عن أبيه، عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا اؤتمن خان، وإذا وعد أخلف "
وفي سنن أبي داود (323/3)
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا سريج بن النعمان، حدثنا فليح، عن أبي طوالة عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر الأنصاري، عن سعيد بن يسار، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تعلم علما مما يبتغي به وجه الله عز وجل لا يتعلمه إلاليصيب به عرضا من الدنيا، لم يجد عرف الجنة يوم القيامة» يعني ربحها. والله اعلم بالصواب