Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


اجتماعی قربانی میں شریک حصہ داروں کی رقوم سے ادارے کے اخراجات کی رقم منہا کرنا


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ !

ہم چند احباب نے یہ رفاہی ادارہ عوامی خدمات کے پیش نظر قائم کیا ہے۔ اس میں مختلف خدمات کے ساتھ اجتماعی قربانی کی ترتیب بھی کئی سالوں سے قائم ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں وقف قربانی کی ترغیب دے کر بکنگ کی جاتی ہے۔

پھر ملک کے غریب پسماندہ علاقوں میں ادارہ اپنے منظم نظام کے تحت قربانی کی ترتیب بناتا ہے۔ اس حوالے سے چند مسائل کے شرعی جوابات مطلوب ہیں ۔

1. جولوگ قربانی کا حصہ وقف کرنا چاہتے ہیں۔ ان سے مخصوص رقم لی جاتی ہے اور اس کی ادارہ کی طرف سے با قاعد ہ رسید جاری کی جاتی ہے۔ اس میں درج ذیل عبارت اس لیے لکھی جاتی رہی ہے کہ ادارہ اپنے متفرق اخراجات کے لیے کچھ رقم فی جانور روک لیتا ہے۔

نوٹ:یہ قربانی کا حصہ برائے فقراء و مساکین ہے۔ اس حصہ کی رقم میں سے کچھ بچ جانے کی صورت میں ادارہ اپنی صوابدید پر استعمال کا مجاز ہوگا ۔ فقط ادارہ

مذکورہ عبارت کے حوالے سے دو باتوں کی وضاحت چاہیے۔

الف:کیا اس طرح صرف عبارت کا تحریر کر دینا کافی ہے یا واقف کو خصوصی توجہ دلانا بھی ضروری ہے؟

ب:قربانی کے حوالے سے دو نوعیتوں کے اخراجات ہوتے ہیں۔

1) وہ اخراجات جو ادارہ میں پیش آتے ہیں۔

الف: رقوم کی منتقلی پر بینک کے اخراجات

ب: رسیدیں ، بینرز ، پمفلٹ ، اشتہارات وغیره

ج: وہ افراد جو حصوں کی بکنگ اور متعلقہ دیگر امور میں متعین ہوتے ہیں ادارہ کی طرف سے ان کو اجرت دی جاتی ہے۔

ان خراجات کے حوالے سے ادارہ کی ترتیب یہ ہے کہ انتظامیہ فی جانور کچھ رقم طے کر لیتی ہے۔ جو قربانی کرنے والے علاقوں میں بھیجتے وقت روک لی جاتی ہے۔

مثلاً : فی حصہ 6500 روپے ہے۔ تو ایک گائے کے سات حصے 45,500 روپے کے ہوئے،اس میں سے ادارہ 2500 روپے اخراجات کی مد میں روک کر بقیہ43,000روپے قربانی کے لیے بھجوادیتا ہے۔اس طرح اخراجات کے لیے ادارہ کا تخمینا ایک متعین رقم روک لینا شرعا کیسا ہے؟

2) وہ اخراجات جو قربانی کرنے والے علاقوں میں پیش آتے ہیں۔

الف: قصائی کی اجرت

ب: چٹائی، ٹوکری ، پلاسٹک کی تھیلیاں وغیرہ

ج: ٹوکن کی چھپائی اور تقسیم کے لیے آمد ورفت کا کرایہ

د: گوشت کی تقسیم اور متفرق امور کی انجام دہی کے لیے جو افراد استعمال ہوتے ہیں، ان کی اجرت، جانوروں کے لانے کا کر ایہ۔

ادارہ قربانی والے علاقوں میں رقم دیتے وقت یہ واضح کردیا ہے کہ ادارہ کی طرف سے دی جانے والی رقم سے ہی آپ نے تمام اخراجات پورے کرنے ہیں ، ایسی صورت میں یہ علاقے والے مذکورہ اخراجات کی ترتیب بھی اس رقم میں سے بناتے ہیں ، اس کی بھی شرعی صورت حال واضح فرمادیں۔

2. واقف کی سہولت کو سامنے رکھتے ہوئے ادارہ دوطریقوں پر بکنگ کرتا ہے

1) گائے فی حصہ 6500 روپے (اس حساب سے ایک مکمل گائے 45500 روپے کی ہوتی ہے)

2) گائے فی حصہ 5000 روپے (اس حساب سے ایک مکمل گائے 35000 روپے کی ہوتی ہے)

اب کئی مرتبہ ایسی نوبت آتی ہے کہ کسی ایک ہی علاقے میں دونوں نوعیتوں کی گائے بھجوانی پڑتی ہیں۔ اگر ایک ایک گائے بھی بھجوا ئیں توکل رقم اسی ہزار پانچ سوروپے 80500 ہوتی ہے۔

یہ ہے کہ قربانی کرنے والےبکنگ کی نوعیت پر الگ الگ قربانی کرنے کے پابند ہیں یاوہ چاہیں تو کل رقم سے دو گائے برابر بھی خرید سکتے ہیں۔

3. کیا یہ ضروری ہے کہ واقف سے تمام حصوں کے حوالے سے نام معلوم کیے جائیں، اور جس علاقے میں قربانی کی جارہی وہاں کے ذمہ داریا قربانی کرنے والےکو تمام نام بتائے جائیں اور وہ اس نیت سے قربانی کرے؟

ادارہ اب تک یہ کرتا رہا ہے کہ حتی الامکان تو نام لیے جاتے ہیں ، یا پھر واقف کی نیت ہی پر اپنی نیت کو کر لیا جاتا ہے اور قربانی کرنےوالے افراد کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جو واقف کی نیت ہے وہ آپ بھی کر لیں۔ اگر اس طریقہ کار میں شرعاً کوئی قباحت ہو تو اس کا تدارک بھی بتادیں۔

مذکورہ بالا طریقوں میں جو طریقے نا جائز ہیں، اور اب تک معمول میں رہے ہیں ان کی تلافی کے طریقے بھی خاص طور پر واضح کر کے عنداللہ ماجور ہوں۔

جواب

دینی مدارس اور رفاہی اداروں کی جانب سے آج کل جو اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے اس میں ان کی حیثیت مجموعی طور پر حصہ داروں کی طرف سے وکیل کی ہوتی ہے اور ان پر اس معاملہ میں وکالت ہی کے احکام لاگو ہوں گے۔ نیز قربانی کا حصہ وقف نہیں ہوتا، اگر قربانی کا حصہ وقف کرنے سے آپ کی مراد یہ ہے کہ قربانی کرنے والا اس کا گوشت فقراء پر صدقہ کرنا چاہتا ہے جیسا کہ ظاہر یہی ہے تو ایسا کرنا درست ہے مگر اسے وقف نہیں کہا جائے گا۔ اس تمہید کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں۔

(1)۔۔۔الف: آپ کے ادارے کی حیثیت وکیل کی ہے اور قربانی اور اس کے اخراجات کے لیے جورقم لوگوں سےوصول کی جاتی ہے وہ آپ کے پاس امانت ہے۔ وکیل ہونے کی حیثیت سے قربانی کے حصے اور اس پر آنےوالے اخراجات کے لیے عرف کے مطابق رقم وصول کرنا درست ہے۔ اگر قربانی میں حصہ لیتے وقت حصہ داروں سے ان کی رضامندی کے ساتھ اس قسم کا معاہدہ کیا تھا کہ " اس حصہ کی رقم میں سے کچھ بچ جانے کی صورت میں ادارہ اپنی صوابدید پر استعمال کا مجاز ہو گا۔ " تو ایسی صورت میں ادارہ کے لیے اس رقم کا استعمال جائز ہے۔

البتہ بہتر یہ ہے کہ رسید پر ذیل میں درج نمونہ کی طرح کی عبارت درج ہو اور حصہ لینے والا اس کے نیچےاپنے دستخط کے ذریعہ رضامندی کا اظہار کرے تا کہ فقہی طور پر کوئی اشکال پیدا نہ ہو۔

اپنی قربانی کے لیے جانور کی خریداری سے لے کر گوشت وغیرہ کی تقسیم تک کے تمام مراحل کے لیےادارے کے صدر / ڈائر یکٹر کو اپنا با اختیار وکیل بناتا ہوں وہ خود یا اپنے نمائندہ کے ذریعے ان امور کا انتظام کریں گے اور تخمینی اخراجات کی رقم جو نقل و حمل، چارہ کھلائی، قصاب کی اجرت اور دیگر ضروریات و انتظامات کے لیے درکار ہے میرے حساب سے منہا کر کے معاملہ بے باق کر دیا جائے۔ تمام مصارف کے بعد تخمینی رقم سے اگر کچھ بچ جائے تو صدر/ ڈائریکٹر ادارہ حسب صوابدید کسی بھی مصرف میں خرچ کر سکتے ہیں۔

اگر تخمینی رقم وضع کرنے اور گائے کی خریداری کے بعد بھی میرے حصہ / حصوں کی کچھ رقم بچ جائے تو وہ اگرمیں نے یا میرے نما ئندہ نے قربانی کے دن وصول نہ کی تو وہ ادارے / ٹرسٹ میں بطور عطیہ بذریعہ رسید جمع کر دی جائے۔

ب:سوال میں مذکور قربانی سے متعلق ادارہ میں پیش آنے والےحقیقی اخراجات اورعلاقہ میں پیش آنے والے حقیقی اخراجات کے لیے محتاط اندازے کے مطابق مخصوص رقم وصول کرنا اور اس کو رو کے رکھنا درست ہے۔ بشرطیکہ باقی رقم سے شریعت کے احکام کے مطابق قربانی کے تمام اخراجات با آسانی با ہو جائیں۔(1)

(2)۔۔۔ وکیل امین ہو تا ہے اور جس شخص نے جس قسم کے حصہ کے لیے بکنگ کروائی ہے اسی میں اس کی رقم خرچ کرناضروری ہے۔ مؤکل یعنی قربانی کرنے والے کی اجازت کے بغیر بیان کردہ بکنگ کے علاوہ میں پیسے خرچ کرنا جائزنہیں۔ سوال میں مذکور صورت میں قربانی کرنے والے وکیل، رقم جمع کرانے والے موکلین کی طرف سے جمع کر دہ رقم اور بکنگ کی نوعیت پر الگ الگ قربانی کرنے کے پابند ہیں۔

اگر ماضی میں اس طرح سے کیا گیا ہے تو قربانی تو سب شر کاء کی طرف سے استحساناً درست ہو جائے گی، البتہ جس حصہ دار کی رقم سے سستا حصہ خریدا گیا تو اس کے حصہ کی قیمت سے زائد رقم کے بارے میں اگر اس سےجازت لے لی جائے اور وہ اس کو کسی دوسرے کے لیے صدقہ کر دے اور اپنے کم قیمت کے حصہ پر راضی ہوجائے تو قربانی درست ہے ورنہ اس شخص کو اس کی زائد رقم واپس لوٹانی ضروری ہے، اور اس کا ضمان اس کوتاہی کے مرتکب افراد پر ہے۔(2)

(3)۔۔۔اگر قربانی کرنے والے کی تعیین کے بغیر قربانی کر دی گئی تو قربانی ادا ہو جائے گی البتہ بہتر یہ ہے کہ ہر گائےمیں ہر حصہ دار کا حصہ متعین ہو تا کہ اگر کوئی گائے مر جائے تو معلوم ہو سکے کہ کس حصہ دار کی قربانی ادا نہیں ہوئی۔ سوال میں درج واقف کی نیت پر اپنی نیت کرنے کی بات واضح نہیں ہے۔

(1)
مشكاة المصابيح (2/ 889)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى .

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 1974)
(" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه.

الفتاوى الهندية (3/ 567)
ومنه أنه ‌أمين فيما في يده كالمودع فيضمن بما يضمن به المودع ويبرأ به.

(2)
الفتاوى الهندية (306/5)
وفي الأضاحي للزعفراني اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم ولم يسم لكل واحد منهم شاة بعينها فضحوا بها كذلك فالقياس أن لا يجوز، وفي الاستحسان يجوز.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (327/6)
ولو أن ثلاثة نفر اشترى كل واحد منهم شاة للأضحية أحدهم بعشرة والآخر بعشرين والآخر بثلاثين وقيمة كل واحدة مثل ثمنها فاختلطت حتى لا يعرف كل واحد شاته بعينها واصطلحوا على أن يأخذ كل واحد منهم شاة يضحي أجزأتهم، ويتصدق صاحب الثلاثين بعشرين وصاحب العشرين بعشرة ولا يتصدق صاحب العشرة بشيء، وإن أذن كل واحد منهم أن يذبحها عنه أجزأته ولا شيء عليه، كما لو ضحى أضحية غيره بغير أمره ينابيع.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1793/79 المصباح : QP:012