Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


اجتماعی قربانی کرنے والوں کا وکیل کی عید کے مطابق قربانی کرنے حکم


سوال

ہم کمرشل بنیادوں پر لوگوں کے لئے قربانی کرتے ہیں، یعنی ان کے آرڈر کرنے پر جانور خریدتے ہیں اور قربانی کر کے گوشت ان کو یا ان کے بتائے ہوئے مصرف میں بھیج دیتے ہیں۔

بعض دفعہ کسی ملک سے آرڈر آتا ہے کہ ان کے ہاں عید کا جو پہلا دن ہے اس دن ہماری قربانی کر کے ہمیں گوشت بھیج دیں، جبکہ اس دن ہمارے ہاں 9 ذی الحج ہے ، کیا اس طرح جبکہ پاکستان میں عید نہیں ہے قربانی کی جاسکتی ہے ؟

ان کا کہنا ہے کہ ہم جانیں اور ہماری قربانی ، ہم نے اپنے علماء سے پوچھا ہوا ہے اور ہماری حکومت نے بھی اس کی اجازت دی ہوئی ہے لہذا بس آپ ہماری قربانی کر دیں،تو کیا ہمارے لئے ان کی طرف سے اس طرح قربانی کرنے کا معاملہ کرنا درست ہے ؟

جواب

صورت ِمسئولہ میں جبکہ پاکستان میں نو ذوالحجہ ہے اور ایامِ نحر شروع ہی نہیں ہوئے، تو یہاں ایسے شخص کی طرف سے قربانی کرناجو ایسے ملک میں ہو جہاں ایام ِنحر شروع ہو گئے ہیں جائز نہیں، اور یہ قربانی ادا نہیں ہوگی ۔ کیونکہ جس جگہ قربانی کی جارہی ہے وہاں ابھی ایامِ نحر شروع ہی نہیں ہوئے۔ جبکہ قربانی میں اضحیہ یعنی جانور کی جگہ کا اعتبار ہوتا ہے۔ (ماخذہ : تبویب 42/1112)

اس لئے آپ لوگ آرڈر دینے والوں کومسئلہ سمجھا کر اگلے دن قربانی کرنے پر آمادہ کریں۔ لیکن اگر وہ اپنے علماء کے قول کی وجہ سے قربانی کرانے پر اصرار کریں اور آپ نے ان کے کہنے کے مطابق ان کے لئے جانور ذبح کر دیئے توآپ کا ان سے جانور کی قیمت اوراجرت وصول کرنا جائز ہے۔ کیونکہ آپ کی اجرت عمل کے مقابلے میں ہے ، اور یہ عمل آپ لوگوں نے مؤکل کی ہدایت کے مطابق کر دیا ہے اس لئے اجرت کے مستحق بن گئے ہیں۔ قربانی کے ہونے یانہ ہونے کا استحقاقِ اجرت سےکوئی تعلق نہیں ہے۔

فتاوی قاضیخان (3/204)
و لو كان هو في مصر وقت الأضحية و أهله فى مصر آخر فكتب إلى الأهل و أمرهم بالتضحية في ظاهر الرواية يعتبر مكان الأضحية .

الدر المختار (ص (646)
والمعتبر مكان الاضحية لا مكان من عليه، فحيلة مصرى أراد التعجيل أن يخرجها لخارج المصر، فيضحى بهاإذا طلع الفجر، مجتبى.

عيون المسائل للسمرقندی الحنفی (122)
مكان الأضحية وزمانها
.629هشام عن محمد قال: ينظر إلى الموضع فإن كان الرجل من أهل المدينة فأمر بأن يضحى عنه في غيرالمصر جاز أن يضحى عنه بعد اشتقاق الفجر وبعد طلوع الشمس أحب إلينا. وإن كان الرجل من غير أهل المدينة فأمر بأن يضحى عنه في المصر لا يجوز أن يضحى عنه إلا بعد صلاة العيد.

صحيح البخاري (4/14)
عن البراء بن عازب رضى الله عنهما قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم الأضحى بعد الصلاة فقال من صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فإنه قبل الصلاة ولا نسك له فقال أبو بردة بن نيار خال البراء يا رسول الله فإنى نسكت شاتي قبل الصلاة وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب وأحببت أن تكون شاتي أول ما يذبح في بيتى فذبحت شاتي وتغديت قبل أن أتى الصلاة قال شانك شاة لحم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2189/56 المصباح : FDX:023
11 0