میں گارمنٹس کی لائن کے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ میں بطور ٹھیکیدار کام کرتا ہوں، میرے اس شعبے میں ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمپنی کے لئے کاریگروں کے ذریعے مال تیار کر وائے، کمپنی کی طرف سے پروڈکٹ کی تیاری کے لئے جو اجرت دی جاتی ہے اس میں کاریگر کی مزدوری اورٹھیکیدار کا کمیشن الگ الگ واضح کیا گیا ہوتا ہے، مثلا کمپنی کہتی ہے کہ فلاں آرٹیکل مثلاٹی شرٹ تیار کرنا ہے، جس کافی درجن ریٹ 300 روپے ہے جوکاریگر کو دینے ہیں اور اس پر آپ کی ٹھیکیداری کا کمیشن فی درجن 20 روپے ہو گا۔
یہ سارا کام کمپنی میں ہی انجام دیا جاتا ہے اور سارا ساز و سامان،مشینری وغیرہ کمپنی کی ہوتی ہے، ہم صرف مال تیار کروانے کے ذمہ دار ہیں۔ چونکہ ہمارا کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے کہ مخصوص وقت کے اندراندر مال تیار کر کے دینا ہے جس کے لئے کاریگروں کا بروقت میسر ہونا بہت ضروری ہے، لیکن اس شعبہ کے زیادہ تر کاریگر ٹھیکیدار کے پاس کام کرنےکے لئے ایڈوانس پیسوں کا تقاضہ کرتے ہیں اور اگر ہم ان کا تقاضہ پورا نہ کریں تو وہ دوسری جگہ کام پر چلے جاتے ہیں جہاں سے ان کو ایڈوانس ملتا ہو۔چنانچہ مجبورا ًہمیں کاریگر کو ایڈوانس دینا پڑتا ہے اور اس مقصد کے لئے ایک خطیر رقم ( تین چارلاکھ روپے) بطور ایڈوانس کاریگروں کے ذمہ قرض کی صورت میں رہتی ہے۔ اب اس صورتحال میں بعض ٹھیکیداران کے پاس گنجائش ہوتی ہے اور وہ یہ رقم اپنے پیسوں میں سے دیتےہیں لیکن کچھ ٹھیکیدار جن کے پاس رقم نہ ہو تو وہ اس کے لئے دوسرے لوگوں سے پیسہ لیتے ہیں۔
جن سے پیسہ لیا جاتا ہے (جس کو ہمارے ہاں اصطلاحا ًانویسٹر کہا جاتا ہے ) وہ اس پر نفع کا مطالبہ کرتے ہیں چنانچہ ہم ان سے یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ آپ ہمیں مثلا تین لاکھ روپے دید وجو ہم اپنے پاس رکھیں گے ، یہ رقم حسب ضرورت کاریگروں کو ایڈوانس دینے کے مد میں استعمال کی جائے گی اور آپ کو بطور نفع اپنے ٹھیکیداری کمیشن میں سے فی درجن کے حساب سے 3 روپے دیں گے (یہ فیصلہ ٹھیکیدار کرتا ہے کہ کس کاریگرکو کتنی رقم دینی ہے یا نہیں دینی ہے، انویسٹر کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور نہ اس کو پتہ ہوتا ہے)۔ چنانچہ ہم پورا مہینہ کام کرتے ہیں، جس میں مختلف قسم کےآرٹیکل تیار ہوتے ہیں، کسی آرٹیکل پر ہمارا کمیشن 20 روپے ہوتا ہے، کسی پر 15 اور کسی پر 25 مہینہ کے آخر میں کمپنی کی طرف سے ہمیں کلوزنگ سلپ ملتی ہے جس میں پوری تفصیل درج ہوتی ہے کہ اس ماہ ہم نے کمپنی کے لئے کتنا مال تیار کیا اور اس کی ٹوٹل اجرت اور ہمارا کمیشن کیا بنا، اور کل کتنے درجن مال تیار ہوا، چنانچہ ہم انویسٹر کے سامنے وہ سلپ رکھتے ہیں اور اس ماہ جتنے درجن مال تیار ہوا ہو ( چاہے اس پر ہمارا کمیشن کم ہو یازیادہ) فی در جن کے حساب سے اس کو 3 روپے دیدیتے ہیں، مثلا اگر پانچ ہزار درجن مال تیار ہواہو تو اس کا نفع پندرہ ہزار بنتا ہے جو ہمیں انویسٹر کو دینا پڑتا ہے۔اس صورتحال کے پیش نظر مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1. کیا ٹھیکیدار کا انویسٹر سے رقم لے کر اس کو اپنے کمیشن میں اس طرح شریک کرنا کہ کسی مال پر میرا کمیشن کم بنے یازیادہ لیکن میں آپ کوفی در جن کے حساب سے 3 روپے ادا کروں گا درست ہے ؟ جبکہ اگر ٹھیکیدار کو کسی بھی وجہ سے نقصان ہو جائے اور اس کا سارا کمیشن اس نقصان میں چلا جائے یا کاریگر ایڈوانس لی کر رقم لے کر بھاگ جائیں بہر صورت انویسٹر کو پورا نفع بھی دینا پڑتا ہے اور جب وہ مطالبہ کرےتو پوری رقم واپس کرناضروری ہوتا ہے۔ گویا انویسٹر صرف نفع میں حصہ دار ہوتا ہے نقصان میں نہیں ؟
2. بعض ٹھیکیداران نے ( یہ سوچ کر شاید پہلی صورت سود نہ ہو) انویسٹر کے ساتھ نفع کو فیصد کے اعتبار سے طے کیا ہوا ہے ، مثلا وہ یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ ٹھیکیدار کو کمپنی کی طرف سے تمام کٹوتیوں کے بعد جتنا کمیشن ملے گا اس کا 20 فیصد انویسٹر کو دینا ہو گا، کیا یہ صورت درست ہے ؟ واضح رہے کہ اس صورت میں بھی انویسٹر کاریگروں کے رقم لے بھاگ جانے کی صورت میں ہونے والا نقصان برداشت نہیں کرتابلکہ یہ سارا نقصان ٹھیکیدار خود اٹھاتا ہے؟
3. اگر بالفرض درج بالا صورتوں میں شرعی خرابیاں لازم آنے کی وجہ سے جائز نہ ہو تو کیا اس میں ردو بدل کر کے اس خرابی کو دور کیا جاسکتاہے؟ ضرور آگاہ فرمائیں۔براہ کرم سوالات کے جوابات تفصیل کے ساتھ عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔
(1،2،3)۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق دونوں صورتوں میں انویسٹر ٹھیکیدار کو جور قم دیتا ہے، اس کی حیثیت قرض کی ہے، اور قرض پر اضافی رقم لینا دینا سود ہے جو حرام اور سخت گناہ ہے ، اس سے اجتناب ضروری ہے۔البتہ اگر انویسٹر کے ساتھ ٹھیکیداری میں شرکت ( شرکت اعمال) کا معاملہ کر لیا جائے، جس میں کام کی ذمہ داری دونوں پر ہو، یعنی انویسٹر بھی اپنے ذمہ کوئی کام لے تو پھر یہ معاملہ درست ہو گا، اس صورت میں طے شدہ کمیشن میں سےاس کا بھی حصہ مقرر کر لیا جائے ، البتہ انویسٹر کی رقم جو کاریگروں کو دی جائے گی ،ہلاک ہونے کی صورت میں دونوں(ٹھیکیدار اور انویسٹر ) نقصان میں برابر شریک ہوں گے۔
(1،2،3)
السنن الكبرى للبيهقي (573/5)
عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " كُلُّ قَرْضِ جَرَّمَنْفَعَةٌ فَهُوَ وَجْهُ مِنْ وُجُوهِ الرِّبَا " مَوْقُوفٌ.
الدر المختار (323/4)
والحاصل من أجر( عمل أحدهما بينهما على الشرط) ولو الآخر مريضا أومسافرا أو امتنع عمدا بلا عذر لأن الشرط مطلق العمل لا عمل القابل ألاترى أن القصار لو استعان بغيره أو استأجره استحق الأجر بزازية .
وفي الشامية تحت قول الدر : والحاصل إلخ ما مر من قوله ويكون الكسب بينهماإنما هو في الكسب الحاصل من عملهما، وما هنا في الحاصل من عمل أحدهما: أي لا فرق بين أن يعملا أو يعمل أحدهما سواء كان عدم عمل الآخر لعذر أو لا؛لأن العامل معين القابل والشرط مطلق العمل إلخ...
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (62/6)
(وأما) عندنا فالربح تارة يستحق بالمال وتارة بالعمل وتارة بالضمان على ما بينا،وسواء عملا جميعا أو عمل أحدهما دون الآخر، فالربح بينهما يكون على الشرط؛لأن استحقاق الربح في الشركة بالأعمال بشرط العمل لا بوجود العمل، بدليل أن المضارب إذا استعان برب المال استحق الربح، وإن لم يوجد منہ العمل؛ لوجود شرط العمل عليه.