Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


وصیت کے مطابق میراث تقسیم کرنے کا حکم


سوال

درج ذیل مسائل میں آپ سے شرعی رہنمائی مطلوب ہے:

1. ہمارے والد صاحب2008کو انتقال فرما گئے تھےجنازے والے دن والد کے ایک دوست نے ہمیں بتایا کہ ہمارے والد صاحب نے ایک وصیت لکھ رکھی ہے۔والد صاحب نے اپنے اس دوست کو کہا تھا کہ وہ ہمیں ان کی وفات کے بعد اس کے بارے میں آگاہ کریں۔ ہم نے جنازے سے پہلے ہی وہ وصیت ڈھونڈ کر پڑھی تاکہ اگر کوئی بات ان کے جنازے کے بارے میں درج ہو تو تدفین سے پہلے ہی اس پر عمل کروالیں، لیکن ایسی کوئی بات لکھی ہوئی نہیں تھی۔ والد صاحب کی وصیت میں تقریباً تمام چیزوں پر ہم نے عمل درآمد کر لیا ہے، سوائے جائداد کی تقسیم کے ۔ جس کو ہم نے کئی وجوہات کی بناپر تقسیم نہیں کیا۔ لہذا جائیداد کی تقسیم وصیت کے مطابق ابھی تک عمل میں نہیں آئی)

2. میرے والد گرامی نے وارثوں میں جو افراد پیچھے چھوڑے ان میں ان کی زوجہ یعنی ہماری والدہ، 4 بیٹے اور 2 بیٹیاں تھیں۔ (والد صاحب کے انتقال کے وقت ان کے والد والدہ ، دادا، دادی اور نانا نانی وفات پاچکے تھے)

3. اس کے بعد سن 2015ء کو میری والدہ کی بھی وفات ہو گئی۔ ہماری والدہ محترمہ کو ان کے تمام اخراجات فیملی اکاؤنٹ سے ادا کئے جاتے تھے۔ ان کی زندگی میں والد صاحب کی میراث تقسیم نہیں ہو سکی تھی، جبکہ ان کی اپنی میراث میں نقدی اور زیورات شامل تھے۔ نقدی ان کے روزہ نمازوں کے فدیہ کے طور پر ادا کی گئی، باقی رقم بطورصدقہ استعمال کی گئی۔ ان کے زیورات کو تمام بھائی بہنوں کے مشورے سے فروخت کر کے اس کی رقم ایک مسجد کوبطور قرض حسنہ دی گئی ہے، جس کو مسجد کی دکانوں اور مکانات کی تعمیر میں خرچ کیا جارہا ہے۔ والدہ مرحومہ نےکوئی بھی وصیت، زبانی یا تحریری نہیں کی تھی۔ (والدہ کے انتقال کے وقت ان کے والد والدہ، دادا، دادی اور نانا نانی وفات پاچکےتھے)

4. والدین کے انتقال سے اب تک کے دورانیہ میں ورثاءمشترکہ میراث میں سے مختلف قسم کے بڑے چھوٹے خرچے کرتے رہےہیں ، ان میں سے بعض خرچوں کے بارے میں ورثاء نے ایک دوسرے کو تحریری طور پر پوری رضامندی کے ساتھ معاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ بعض اخراجات ایسے ہیں جو بعض ورثاء نے کئے تھے تو ان کی ادائیگی دوسرے ورثاء کو کرناطے پایاہے،مثلاً بعض ور ثاء نے مشترکہ خرچے سے حج کیا تھا، تو اب جن ورثاء نے حج نہیں کیا ان کو ایک مخصوص متعین رقم تقسیم سے پہلےمشترکہ میراث سے دینا باہمی رضامندی سے طے پایا ہے۔

5. ابھی تک والد صاحب کی میراث تقسیم نہیں ہوئی تھی، اس سال 2020 میں ہم نے کاروبار کی بیلنس شیٹ کے مطابق جائیداد کی تقسیم کا ارادہ کیا ہے۔

6. والد صاحب نے میراث میں جو چیزیں چھوڑیں وہ تین قسم کی ہیں:
قسم1: مکانات ، دو کا نیں، بینک بیلنس ، نقدی، زیورات وغیرہ
قسم 2: دو چلتے ہوئے کاروبار
قسم 3: زرعی زمینیں (یہ زمینیں مختلف ویلیو کی مختلف جگہوں پر ہیں، بعض شہر کے قریب ہیں اور بعض دور ہیں، ان کی فی الحال صحیح مالیت معلوم کرنا کافی مشکل کام ہے)

7. ان تینوں اقسام سے متعلق ورثاء نے باہمی رضامندی سے طے کیا ہے کہ :
قسم 1: ان چیزوں کی مالیت لگا کر فوری طور پر تقسیم کر لیا جائے گا۔
قسم 2: تمام ورثاء کاروبار میں شریک رہنا چاہتے ہیں، اس لئے یہ طے پایا ہے کہ کاروبار میں ہر ایک کے شرعی حصے کی تعیین کر لی جائے اور اس کے مطابق آئندہ کاروبار کے منافع کو حصوں کے مطابق تقسیم کیا جایا کرے گا۔
قسم 3: اس کے بارے میں ور ثاء نے طے کیا ہے کہ ان زمینوں کی فی الحال مالیت معلوم کرنا چونکہ کافی مشکل ہے، نیز ور ثار ان زمینوں کو ابھی بیچنا بھی نہیں چاہتے اس لئے یہ اسی طرح بدستور مشترک طور پر باقی رہیں، اور آئندہ جب کوئی زمین فروخت کی جائے گی تو اس وقت کی مالیت کے اعتبار سے ورثاء میں تقسیم ہو جائے گی۔

سوالات اور در کار رہنمائی:

1) ورثاء میں وراثت کی شرعی تقسیم کس طرح ہو گی؟

2) والد صاحب کی وصیت میں سے بعض اُمور جیسا کہ شق 7 میں ہے کہ جو لوگ کاروبار میں شریک نہ ہوں ان کو ایک حصہ دیاجائے یا بہنوں کو نقدی دے دی جائے، کیا اس وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے، نیز کیا میراث کی تقسیم شق نمبر 11 کےمطابق والد صاحب کے تشکیل شدہ بورڈ سے کروانا ضروری ہے؟

3) والد صاحب کے انتقال کے بعد کئے گئے مشترکہ اخراجات کے تصفیہ کے لئے ایک دوسرے کو معاف کر دینا شرعاً درست ہے؟ نیز بعض ورثہ کی طرف سے کیے گئے بڑے اخراجات مثلاً حج اور کاروبار کے لیے لی گی رقم وغیرہ ، ان کے بارے میں یہ طے کرنا کہ باقی ورثاء کو حج کے لیے لم سم رقم دی جائے گی، نیز مزید بڑے خرچے جس نے کیے ہیں اس کے حصے سےکاٹے جائیں گے۔ کیا یہ درست ہے ؟

4) میراث کی تینوں اقسام کی تقسیم سے متعلق کئے گئے فیصلے شرعی طور پر درست ہیں؟

5) کار و بار کو بعض ورثاء ( دو بھائی) سنبھالتے ہیں، کیا ان بھائیوں کے لئے ان کی ذمہ داری کے مطابق آئندہ نفع سے الگ تنخواہ متعین کرنا درست ہے ؟ نیز اب تک کاروبار سنبھالنے کے عوض ان کو کوئی مخصوص رقم / تنخواہ باہمی رضامندی سے دی جاسکتی ہے؟

6) دیگر ورثاءجو کہ کاروبار میں سلیپنگ پارٹنر ہیں کیا ان کے لئے ماہانہ اخراجات کے عنوان سے کچھ تنخواہ متعین کرنا درست ہے؟

7) اگر اب ہم والد مرحوم کے ترکہ کو تقسیم کرینگے تو کیا کاروبار کی موجودہ صورت حال کے مطابق حصوں کو تقسیم کرینگے یاوالد مرحوم کے انتقال کے وقت کار و بار کی جو صورت حال تھی اس کے مطابق تقسیم ہو گی؟

جواب

(1)۔۔۔مرحوم والدین نے بوقتِ وفات اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال وجائداد، سونا، چاندی، نقدرقم اور ہر قسم کا چھوٹا بڑ اساز و سامان چھوڑا ہے، اس میں سے سب سے پہلے مرحومین کے کفن ودفن کے متوسط مصارف منہا کئےجائیں، پھر دیکھا جائے کہ اگر ان کے ذمہ کسی کا قرضہ واجب الاداء ہو، تو اس کو ادا کیا جائے، پھر دیکھا جائے کہ اگر انہوں نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کی ایک تہائی (۱/۳) کی حد تک اس پر عمل کیا جائے ، اس کے بعد جو کچھ بچے ، اس کو کل ۱۰برابر حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے مرحومین کے ہر بیٹے کو دو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک ایک حصہ دیدیں۔ نقشہ درج ذیل ہے:

میــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت
بیٹے 4 بیٹیاں2
فی کس2=20٪ فی کس 1 =10٪

(2)۔۔۔مرحوم کا ترکہ مذکورہ بالا تناسب اور تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگا، والد مرحوم کی وصیت کے مطابق ورثاءمیں تقسیم نہیں ہوگی ، والد مرحوم کا ملکیتی کارو بار تمام ورثاء میں اسی تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگا، جواو پر مذکور ہوئی، اور اگر اس فتوی کی روشنی میں والد مرحوم کے تشکیل کرد ہ بورڈ ترکہ ورثاء میں تقسیم کرے، تو درست ہے لیکن ضروری نہیں ۔

(3)۔۔۔اگر ورثا ، عاقل و بالغ ہیں، جو اس طریقہ سے ایک دوسرے کو معاف کرنا درست ہے، حج یا دوسرےبڑے خرچے اگر مشترکہ ترکہ سے کئے جائیں، تو ان کی منہائی متعلقہ شخص کے حصہ ، میراث سے درست ہے، حج پر مشترکہ ترکہ سے جتنا خرچہ کیا ہے، وہی خرچہ اس کے حصہ سے منہا ہوگا، دوسرے ورثا ء کو اس کے بدلہ حج کے لئے لم سم رقم دینا درست نہیں کیونکہ حج پیکیج میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔

(4)۔۔۔یہ تینوں فیصلے درست ہیں، تاہم زمینوں کو بھی جلد از جلد مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق تقسیم کرنی چاہیئےتا کہ بعد میں تقسیم میں کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو، کیونکہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، اور نہ ہی موجود ورثاء کی زندگی کی کوئی ضمانت ہے۔

(5)۔۔۔ تنخواہ دینے کی اگر چہ بعض مذاہب فقہیہ میں گنجائش ہے لیکن بہتر طریقہ یہ ہے کہ جو ورثاء محنت کرتےہیں ، ان کا نفع میں تناسب میں بڑھایا جائے، اور گذشتہ زمانہ میں انہوں نے جو محنت کر کے کاروبار کو آگے بڑھایا ہے، اس کاصلہ ان کو باہمی رضا مندی سے دے سکتے ہیں، جس کا معیار اُجرتِ مثل ہے، یعنی اس طرح محنت اگر کوئی ملازم کرتا، تو اس کوکتنی اُجرت ملتی ؟ اس کی بقدراُ جرت ان کو دیدیں۔

(6)۔۔۔ان کے حق میں تنخواہ مقرر کرنے کی کوئی بنیاد نہیں، تاہم یہ لوگ ذاتی اخراجات کے لئے علی الحساب (On Account)کاروبار سے رقم لے سکتے ہیں، جس کا حتمی حساب بعد میں کیا جائے ، اور یہ ان کے حصہ سے منہا کیا جائے۔

(7)۔۔۔ترکہ کی تقسیم کے وقت مرحوم کے ترکہ کی جو قیمت ( ویلیو ) ہوگی ، اس قیمت کے اعتبار سے مرحوم کا ترکہ تقسیم ہوگا۔


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2204/31 المصباح : MDX:045