Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


بوہری، آغا خانی، اسماعیلی ، ذکری اور قادیانی وغیرہ سے خریدوفروخت کرنا


سوال

ہمیں کاروبار کے سلسلے میں بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جن میں سے بعض اوقات بوہری، آغا خانی، اسماعیلی ، ذکری اور قادیانی وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ:

1. ان فرقوں کا حکم کیا ہے ؟ ان کے ساتھ معاملات کرنے کا کیا حکم ہے؟

2. ان لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کرنے میں کیا تفصیل ہوگی؟ اگر ان کی دکان کے ریٹ دوسروں کے مقابلے میں سب سے کم ہوں تو کیا حکم ہو گا اسی طرح اگر وہ چیز خریدنے میں بھی دوسروں کے مقابلے میں اچھی قیمت دیتے ہوں تو تب کیا حکم ہو گا؟

3. ہماری کمپنی کے بیرونِ ملک کچھ ڈسٹری بیوٹر ہیں جو کہ قادیانی ہیں اب ان کے ساتھ معاملہ کرنے یا معاملہ باقی رکھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

(1،3)۔۔۔قادیانی، آغا خانی، اسماعیلی ذکری اور بوہری فرقے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور یہ یہود و نصاری سے بھی زیادہ خطر ناک ہیں کیونکہ یہودو نصاری اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے اور نہ ہی ان کا مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے۔ نیز مسلمان بھی انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اس لئے ان عام کفار یعنی یہود و نصاری کے ساتھ خرید و فروخت، شرکت اور دیگر معاملات کےبارے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ حاجت کے وقت ان سے تجارتی معاملات کر سکتے ہیں، لیکن جب کوئی دوسری صورت ممکن ہومثلاً مسلمان تاجر سے معاملہ کیا جا سکتا ہو تو پھر کفار سے معاملہ نہیں کرنا چاہئے۔

یہ تو عام کفار کا حکم ہے اور قادیانی اور سوال میں مذکور دیگر فرقے چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے کفر کوچھپاتے ہیں تو اگر مسلمان ان کے ساتھ معاملات کریں گے تو سادہ لوح مسلمان ان کو بھی مسلمان ہی سمجھیں گے جس کی وجہ سےان مسلمانوں کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز یہ فرقے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں کو کوئی دنیوی نقصان پہنچائیں ، نیز ان کے ساتھ تجارتی معاملہ کرنا غیرت ایمانی کے بھی خلاف ہے۔ لہذا ان مفاسد کی وجہ سے بلا ضرورت شدیدہ ان کے ساتھ معاملات کرنے سے حتی الامکان پر ہیز کرنا چاہئے۔

(2)۔۔۔ان فرقوں سے خرید و فروخت کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ عام حالات میں ان کے ساتھ خرید و فروخت کرنے سےبچنا بہتر ہے تاکہ خرید و فروخت کی کثرت کی وجہ سے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا نہ ہوں کیونکہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات شرعاً جائز نہیں (اسی خطرہ کے پیشِ نظر بعض علماء ان کے ساتھ خرید و فروخت سے مطلقا ًمنع کرتے ہیں)۔ اگر ان کی دکانوں کےنرخ پورے بازار کے مقابلہ میں کم ہوں یا وہ دوسروں کے مقابلے میں اچھی قیمت دیتے ہوں تو تب بھی دینی غیرت و حمیت کاتقاضہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ خرید و فرخت سے بچا جائے البتہ اگر کسی میں مالی وسعت نہ ہو تو اس کے لئے گنجائش ہے کیونکہ مالی معاملہ کی گنجائش دی گئی ہے (ماخذة تبویب: 64/1414 و منسلکہ فتاوی)

یہ تو ایک اصولی جواب تھا جو قادیانیوں اور ان جیسے دیگر فرقوں کے ساتھ خرید و فروخت کے معاملات کرنے سےمتعلق تھا تا ہم اس حوالے سے دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی کے چند مفتیان کرام کے سامنے ساری صور تحال رکھی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ بیرونِ ملک ڈسٹری بیوٹرز سے فوری طور پر تجارتی معاہدے ختم کرنا کافی مشکل کام ہوتا ہے اور اس میں کافی ساری پیچید گیاں آتی ہیں اور ان سے اس سارے معاملے میں مشاورت کی گئی۔ ان سے مشاورت کے بعد جو جواب سامنے آیا وہ حسبِ ذیل ہے:

قادیانیوں کے ساتھ تجارت کا اصل حکم تو وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا تاہم اگر فوری طور پر تجارتی تعلق ختم کرنا مشکل ہو یا کمپنی کو نقصان کا اندیشہ ہو تو جب تک کوئی متبادل ڈسٹری بیوٹرز نہیں مل جاتا ان کے ساتھ تجارتی تعلقات باقی رکھنے کی گنجائش ہے اور جو نہی کوئی متبادل ڈسٹری بیوٹرز مل جائے ان کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کر دینے چاہئیں۔ بیرونِ ملک رہنے والےقادیانیوں کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اگر ان کے ساتھ یہ کہہ کر تعلقات ختم کئے جائیں گے کہ چونکہ وہ قادیانی ہیں اس لئے ہم تجارتی تعلقات نہیں رکھنا چاہتے تو عین ممکن ہے کہ کمپنی کے خلاف پروپیگنڈا کریں اور وہاں کمپنی کی مارکیٹ خراب کریں اس لئے ان کے قادیانی ہونے کو بنیاد بنانے کے بجائے کسی اور بات کو بہانہ بنانازیادہ بہتر ہے تاکہ ان کی شرانگیزیوں سے بچا جاسکے۔

قادیانی افراد با جماع امت کا فر ہیں مگر اپنے عقائد کفریہ میں غلط تاویلات کر کے انہیں عقائد اسلام قرار دیتے ہیں اور خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں، لہذا وہ زندیق ہیں۔ اور زندیق چونکہ اپنے اسلام میں تلبیس کرتا ہے اس لئے وہ عام کافروں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اور زندیقوں سے ایسے تعلقات رکھنا جائز نہیں ہے جن سے ان کے دعوائے اسلام کی تصدیق یا ہمت افزائی ہوتی ہو، یا انکے کفر میں اشتباہ پیدا ہوتا ہو، یا ان کی خلاف ِاسلام سازشوں میں مددملتی ہو، نیزغیرت ایمانی کا یہ تقاضا ہے کہ ان کے ساتھ حتی الامکان خرید وفروخت اور تجارتی معاملات سے بھی مکمل پرہیز کیا جائے۔

.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1099/24 المصباح : Sf:002
29 0