Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


خریدارکاپیکنگ میٹیریل(ڈبوں) کو مس پرنٹنگ(Misprinting) کی وجہ سے ضائع کروانا


سوال

ہماری ایک فیکٹری ہے سامان کی پیکنگ کیلئے پیکنگ کا سامان ہم آرڈر دے کر تیار کراتے ہیں۔ اس سے متعلق بھی کبھی یہ صورت پیش آتی ہے کہ طباعت کے نقص (مس پرنٹنگ) یا چھاپہ خانہ والوں کی غلطی کی وجہ سے بعض اوقات بعض یا تمام ڈبے ہمارے کام کے نہیں رہتے۔

مسئلہ نمبر 1: اگر سارے کے سارے ڈبے ہی غلط پرنٹ ہو گئے تو چونکہ ہماری کمپنی کا نام وغیرہ ان پر پرنٹ ہو چکا ہوتاہے اس لئے یہ ڈبے سپلائر کو اسی حالت میں واپس بھی نہیں کئے جاسکتے ہیں کہ مبادا کہیں ان کا غلط استعمال نہ ہو جائے اور چونکہ انہوں نے بھی اب انہیں ضائع ہی کرنا ہوتا ہے اس لئے احتیاطاً اس کے لئے ہم یہ کرتے ہیں کہ وہ ڈبے اپنے ملازمین کے ذریعےضائع کروا کے ( تا کہ یہ ڈبے غلط استعمال نہ ہو سکیں) کاغذی کچرا انہیں واپس کر دیتے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں ہم ان کوپیسوں کی ادائیگی نہیں کرتے اور یہ کاغذ بدستور انہی کی ملکیت شمار ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جب وہ سامان ہمارےمطلب کا تیار نہیں ہوا اور ہم خرید بھی نہیں رہے جبکہ چھاپنے والوں کا اس پر خرچہ بھی کافی ہو چکا ہے تو کیا ہمارا انہیں یہ ڈبےضائع کرنے پر مجبور کرنے کا شرعاً کیا حکم ہو گا ؟ کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ورنہ تو ہماری کمپنی کا نام استعمال کر کے کوئی ان ڈبوں میں نقلی یا دو نمبر اشیاء پیک کر کے بیچ سکتا ہے اور ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔واضح رہے کہ چونکہ یہ سامان ہمارے پاس آپ کا ہوتا ہے اس لئے اسے تلف کرنے کا کام بھی ہم خود ہی کرتے ہیں۔

مسئلہ نمبر 2 : اور اگر ان میں سے کچھ خراب اور کچھ صحیح ہوں تو ہماری تو چاہت ہوتی ہے کہ یہ سب کے سب قبول نہ کئےجائیں اور ہمیں نئے سرے سے دوبارہ پرنٹ کر کے دیں تا کہ یکسانیت بر قرار رہے۔ تاہم اگر چھاپہ خانے والے بہت اصرارکریں تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ یہاں اپنے آدمی لائیں اور ہمیں چھانٹی کر کے صحیح ڈبے الگ کر دیں اور پھر ہم خراب ڈبوں کی قیمت منہا کر کے صحیح ڈبوں کی جتنی قیمت بنتی ہو وہ انہیں دے دیتے ہیں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر مثلاً ہم نے ان سے دس لاکھ پیکٹ تیار کر وائے اور اس میں سے کچھ صحیح اور کچھ خراب پرنٹ ہوئے توایسی صورت میں کیا ہمیں صحیح پیکٹ قبول کرنالازم ہے یا واپس کرنے اور قبول کرنے دونوں کا اختیار ہوتا ہے ؟ اور صحیح پیکٹ چھانٹی کرنے کی ذمہ داری ان پر ڈالنا کیسا ہے ؟

جواب

(1)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں آرڈر پر تیار کردہ تمام ڈبے طباعت کی غلطی کی وجہ سے اگر آپ کی مطلوبہ اور طے شدہ صفات کے مطابق نہ ہوں تو آپ کو اختیار ہے کہ مذکورہ ڈبے اسی حال میں طے شدہ قیمت پر قبول کرلیں یا سارے خراب ڈبے واپس کر دیں، نیز باہمی رضامندی سے طے شدہ قیمت سے کم سے کم قیمت پر بھی لے سکتے ہیں، لیکن مذکورہ صورت میں چھاپہ خانہ والوں کی اجازت و رضامندی کے بغیر ان ڈبوں کو ضائع کر کے ان کی قیمت ادا نہ کرنا آپ کیلئے جائز نہیں، کیونکہ مذکورہ ڈبے ضائع کرنے کی صورت میں آپ کے مملوک ہو جائیں گے ، اس لئے آپ پر ان کی قیمت کی ادائیگی لازم ہو گی، اسی طرح اگر آپ یہ ڈبے قبول نہ کریں تو سپلائر کو بھی ڈبوں کے ضائع کرنے پر مجبور کرنا جائز نہیں، البتہ اگر آپ چھاپہ خانہ والوں کو ساری صور تحال بتا دیں کہ ڈبے ہماری مطلوبہ صفات کے مطابق نہیں ہیں اس لئے ہم یہ ڈبے قبول نہیں کرتے ، اور آپ کوواپس بھیج رہے ہیں، اور چونکہ آپ بھی انہیں ضائع ہی کریں گے اس لئے اگر آپ کی اجازت ہو تو آپ کی طرف سے ہم خودضائع کر کے کاغذی کچرا آپ کو واپس بھجوا دیتے ہیں، اور اس پر چھاپہ خانہ والے راضی ہو جائیں تو اس صورت میں آپ ان کےوکیل کی حیثیت سے ضائع کر سکتے ہیں۔(1)

(2)۔۔۔صورتِ مسئولہ میں چونکہ آرڈر دیتے وقت کل ڈبوں کی تعداد اور ان کی مجموعی قیمت کے ساتھ ساتھ ہر ہرڈبے کی الگ الگ قیمت بھی معلوم اور متعین ہوتی ہے اس لئے اس صورت میں جتنےڈبے صحیح اور آپ کی مطلوبہ اور طے شدہ صفات کے مطابق ہوں انہیں قبول کرنالازم ہے، اور سپلائر کی رضامندی کے بغیرسارے ڈبے واپس کرنے کا اختیار نہیں۔

ولا يلزم منه تفريق الصفقة لتعدّدها بتفصيل الثمن، ولا يشترط لتعددها تكرارالإنجاب عند الصاحبين كما في العبارات الآتية.

نیز اس صورت میں جب آپ صحیح ڈبے قبول کر کے خراب ڈبے واپس کریں، آپ کا چھاپہ خانہ /طباعت کمپنی کےافراد پر چھانٹی کی ذمہ داری ڈالناشر عاًدرست ہے، کیونکہ مبیع کی سپردگی سے متعلق اُمور کی انجام دہی بائع یعنی مال بیچنے والے کےذمہ ہے، جس میں مبیع کو غیر صحیح سے الگ کر کے دینا بھی شامل ہے۔ نیز اس سلسلہ میں مدار عرف پر ہے، اور ہمارے عرف میں ایسے معاملات میں چھانٹی کر کے صحیح مال سپرد کرنا سپلائر ہی کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔(2)

(1)
كتاب المعايير - (1 / 181) (معيار رقم 11 . الاستصناع والاستصناع الموازي)
٢/٦ إذا كان المصنوع وقت التسليم غير مطابق للمواصفات فإنه يحق للمستصنع أن يرفضه، أو أن يقبله بحاله، فيكون من قبيل حسن الاقتضاء ويجوز للطرفين أن يتصالحا على القبول ولو مع الخط من الثمن.

مجلة الأحكام العدلية - (1 / 67)
مادة ٣٤٤: بعد اطلاع المشتري على عيب في المبيع إذا تصرف فيه تصرف الملاك سقط خياره مثلا لو عرض المشتري المبيع للبيع بعد اطلاعه على عيب قديم فيه كان عرض المبيع للبيع رضى بالعيب فلا يرده بعد ذلك.

(2)
الدر المختار (4 / 525)
(وإذا أوجب واحد قبل الآخر) بائعا كان أو مشتريافي المجلس) لأن خيار القبول مقيد به (كل المبيع بكل الثمن، أو ترك) لئلا يلزم تفريق الصفقة (إلا إذا) أعاد الإيجاب والقبول أو رضي الآخر وكان الثمن منقسما على المبيع بالأجزاء كمكيل وموزون وإلا لا، وإن رضي الآخر لعدم جواز البيع بالحصة ابتداء كما حرره الواني أو (بين ثمن كل) كقوله بعتهما كل واحد بمائة وإن لم يكرر لفظ بعت عند أبي يوسف ومحمد وهو المختار كما في الشرنبلالية عن البرهان.

حاشية ابن عابدين (4 / 526) (مطلب ما يوجب اتحاد الصفقة وتفريقها)
(قوله: لئلا يلزم تفريق الصفقة) هي ضرب اليد على اليد في البيع، ثم جعلت عبارة عن العقد نفسه مغرب. قال: في البحر: ولا بد من معرفة ما يوجب اتحادها وتفريقها. وحاصل ما ذكروه: أن الموجب إذا اتحد وتعدد المخاطب لم يجز التفريق بقبول أحدهما بائعا كان الموجب أو مشتريا وعلى عكسه لم يجز القبول في حصة أحدهما، وإن اتحدا لم يصح قبول المخاطب في البعض فلم يصح تفريقها مطلقا في الأحوال الثلاثة لاتحاد الصفقة في الكل، وكذا إذا اتحد العاقدان، وتعدد المبيع كأن يوجب في مثلين أو قيمي ومثلي لم يجز تفريقها بالقبول في أحدهما إلا أن يرضى الآخر بذلك بعد قبوله في البعض، ويكون المبيع مما ينقسم الثمن عليه بالأجزاء كعبد واحد أو مكيل أو موزون، فيكون القبول إيجابا والرضا قبولا وبطل الإيجاب الأول، فإن كان مما لا ينقسم إلا بالقيمة كثوبين وعبدين لا يجوز فلو بين ثمن كل واحد فلا يخلو إما أن يكرر لفظ البيع، فالاتفاق على أنه صفقتان، فإذا قبل في أحدهما يصح كقوله بعتك هذين العبدين بعتك هذا بألف وبعتك هذا بألف، وأما أن لا يكرره وفصل الثمن فظاهر الهداية التعدد، وبه قال: بعضهم ومنعه الآخرون، وحملوا كلامه على ما إذا كرر لفظ البيع، وقيل: إن اشتراط تكراره للتعدد استحسان، وهو قول الإمام، وعدمه قياس وهو قولهما ورجحه في الفتح بقوله: والوجه الاكتفاء بمجرد تفريق الثمن؛ لأن الظاهر أن فائدته ليس إلا قصده بأن يبيع منه أيهما شاء، وإلا فلو كان غرضه أن لا يبيعها منه إلا جملة لم تكن فائدة لتعيين ثمن كل. اهـ.

واعلم أن تفصيل الثمن إنما يجعلهما عقدين على القول به إذا كان الثمن منقسما عليهما باعتبار القيمة، أما إذا كان منقسما عليهما باعتبار الأجزاء كالقفيزين من جنس واحد فإن التفصيل لا يجعله في حكم عقدين للانقسام من غير تفصيل، فلم يعتبر التفصيل كما في شرح المجمع للمصنف وهو تقييد حسن. اه.ما في البحر وتمام الكلام فيه.

حاشية ابن عابدين (4 / 527)
(قوله: أو بين ثمن كل) أي فيما إذا كان المبيع مما ينقسم الثمن عليه بالقيمة كعبدين وثوبين. (قوله: وإن لم يكرر لفظ بعت) ؛ لأنه بمجرد تفصيل الثمن تتعدد الصفقة على ما هو ظاهر الهداية كما مر. (قوله: وهو المختار) تقدم وجه ترجيحه عن الفتح.

شرح المجلة للأتاسي (2 / 220)
المادة ٢٨٩ والمصاريف المتعلقة بتسليم المبيع تلزم على البائع وحده مثلاأجرة الكيال للمكيلات والوزان للموزونات المبيعة تلزم البائع وحده)وكذا أجرة العداد والذراع اذا بيعت بشرط العد والذرع اه (مسكين) لأن التسليم عليه، وهذا من تمامه، ولو اشتري حنطة في سنبلها فعلى البائع تخليصها بالدسر والتدرية ودفعها للمشتري، هو المختار، والتبن للبائع إلاإذا بيعت بما هي فيه يعني إذا باع الحنطة بالتبن فانه لا يلزم البائع تخليصه(رد المحتار) اي والمشترى يكون للمشتري كما هو ظاهر، ولو اشتري ثيابافي جراب ففتح الجراب على البائع، وإخراج الثياب على المشتري، إلا اذاكان العرف بخلافه، كما لو اشتري ماء في قرية فان صبه : يكون علي البائع(ابوالسعود) لكن قال الحموي: إخراج الثياب من الجراب من تمام التسليم فينبغي أن يكون على البائع اه وكذا صب الحنطة في وعاء المشتري علي البائع (فتح) وفي البحر عن الخانية المعتبر في هذا العرف اه.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1688/96 المصباح : Sf :011
28 0