Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


جھوٹ بول کر خریدی گئی چیز کا حکم


سوال

میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں اور میر اشعبہ خریداری سے تعلق ہے۔ کمپنی کی طرف سے ہمیں پابندی ہوتی ہےکہ کم سے کم ریٹ میں چیز خریدیں اور مہنگے ریٹ میں ہر گزنہ خریدیں اور بعض اوقات ہماری خرید کر دہ اشیاء کی تحقیق بھی کی جاتی ہے کہ مارکیٹ میں کم سے کم کیا ریٹ چل رہا ہے اور ہم نے کس ریٹ پر خریداری کی۔ اگر فرق ہو تو ہم سے پوچھ گچھ ہوتی ہے اور اگر زیادہ فرق ہو تو ہماری سرزنش ہوتی ہے۔

اب جب ہم کسی چیز کی خریداری کرنے کیلئے مختلف لوگوں سے ریٹ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون شخص کتنا نفع رکھ کے ریٹ بتا رہا ہے جیسے مثال کے طور پر ہمیں پتہ ہوتا ہے یہ چیز 470 روپے کی ہے اور اس چیز کے مختلف لوگوں نے 490 سے اوپر بتائے ہیں جو کہ سب زیادہ ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات یہ پتہ نہیں بھی چلتا کہ وہ ہم سے کس قدر زیادہ پیسے لے رہے ہیں۔
تا ہم دونوں صورتوں میں ہم جب ان سے یہ کہتے ہیں کہ اس میں کچھ پیسے کم کرو تو وہ نہیں کرتے۔ لہذاہم ایک اور طریقہ اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ایک اور سپلائر 480 روپے میں دے رہا ہے تو ایسی صورت میں وہ ریٹ کم کر دیتےہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ ریٹ ہمیں کسی نے نہیں بتایا ہوتا، ہم صرف ریٹ کم کروانے کیلئے ایسا کہتے ہیں۔ اور ہمارے ایساکہنے سے ان کا کوئی نقصان نہیں ہو تا البتہ متوقع نفع کچھ کم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی خوشی سے مال ہمیں فروخت کر دیتاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ :
• اس طرح کہنے کا شرعا ًکیا حکم ہے؟
• اس طریقے سے ریٹ کم کر اکر خریدی ہوئی چیز کا کیا حکم ہو گا؟
• اگر یہ درست نہیں تو ایسی کیا صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ وہ چیز ہمیں سستی مل جائے اورنقصان نہ ہو۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کہا جائے تو ریٹ کم نہیں کرتے۔

جواب

قیمت کم کروانے کیلئے سوال میں ذکر کردہ الفاظ کہنا جھوٹ ہے، جس کی شرعاً اجازت نہیں، اس سے بچناضروری ہے۔ البتہ صریح جھوٹ بولے بغیر اگر مارکیٹ ریٹ کا حوالہ دینے کی کوئی صورت ممکن ہو تو وہ اختیار کی جاسکتی واضح رہے کہ قیمت کم کروانے کیلئے مذکورہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد اگر باہمی رضامندی سے کسی قیمت پرسودا ہو جائے تو بیع درست ہو جائے گی اور خریدی ہوئی چیز کا ستعمال کرنا بھی جائز ہوگا، بشر طیکہ وہ چیز فی نفسہ جائز اورحلال ہو، لیکن جھوٹ بولنے کا گناہ ہو گا۔

الدر المختار - (6 / 437)
الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض لأن عين الكذب حرام.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1925/3 المصباح : SF:032
42 0