Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


حلال جانوروں کےکپوروں کی خریدوفروخت کرنا


سوال

درج ذیل مسائل میں شرعی رہنمائی فر مائیں :
1. دم مسفوح کی خرید و فروخت اور اس کی آمدنی کا حکم؟
2. دم مسفوح کا مرغی کی فیڈ میں استعمال کرنا؟
3. کپورے کی خرید و فروخت کرناشر عاکیسا ہے ؟ اگر فروخت کر دیے ہوں اور رقم وصول کرنا باقی ہو تو اس کا کیا حکم ہو گا؟
4. جانور کے پتے کی خرید و فروخت کا حکم ؟ اور پتے میں موجود مواد جمع کر کے صرف، صابون بنانے والوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔

جواب

(1)۔۔۔ دم مسفوح کی خرید و فروخت اور آمدنی دونوں حرام ہیں۔(1)

(2)۔۔۔ دم مسفوح ناپاک ہے ، اور ناپاک چیز سے تیار شدہ غذا اور فیڈ کھلانے اور ایسی مرغیاں کھانے میں شرعاً کچھ تفصیل ہے ، اور وہ یہ کہ ان مرغیوں کی خوراک میں اگر کوئی نجس چیز مثلا سور کا گوشت، خون یانا پاک چربی شامل کی گئی ہو اور تیاری کے مراحل سے گزرنے کے بعد اس کی ماہیت بدل جاتی ہو تو یہ فیڈ پاک ہے اور مرغیوں کو کھلانا اورایسی مرغیاں کھانا جائز ہے، اور اگر اس ناپاک چیز کی ماہیت تبدیل نہ ہوتی ہو تو ایسی فیڈ ناپاک ہے اسے اپنے اختیارسے مرغیوں کو کھلانا شرعاًنا جائز ہے، تاہم یہ فیڈ کھا کر پرورش پانے والی مرغی حلال ہے بشر طیکہ اس فیڈ کی مرغی میں بدبو نہ ہوتی ہو، کیونکہ فقہاء کرام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ نجاست اور گندگی کھانے والی مرغی اسی طرح حلال اشیاء کے ساتھ نجاست کھانے والی مرغی کا گوشت حلال ہے، البتہ اگر مرغی کے گوشت میں نجاست کی بد بو محسوس ہو تو ایسی مرغی جلالہ کے حکم ہے، اس کا کھانا مکروہ تحریمی ہے، البتہ جب ایسی مرغی کو کچھ عرصہ رکھ کرحلال غذادی جائے ، اور نجاست کے اثرات ختم ہو جائیں تو اس کا گوشت بلا کراہت جائز ہو گا۔ ( تبویب ۴۸/۱۴۸۹) (2)

(3)۔۔۔کپورے کھانا اور اس کی رقم وصول کرنا دونوں مکروہ تحریمی ہے۔ (3)

(4)۔۔۔ حلال جانور اگر جائز طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے، تو اس کے پتے کا بیچنا جائز ہے۔( فتاوی قاسمیہ351/19) (4)

(1)
فقه البيوع( 308/1)
قد اتفق الفقهاء على نجاسة الدم وعدم جواز بيعه.

(2)
الفتاوي الهندية ( 344/5)
وقال أصحابنا: لا يجوز الانتفاع بالميتة على أي وجه، ولا يطعمها ‌الكلاب ‌والجوارح، كذا في القنية.رجل ‌ذبح كلبه أو حماره جاز أن يطعم سنوره من ذلك وليس له أن يطعمه خنزيره أو شيئا من الميتة كذا في السراجية.

(3)
بدائع الصنائع( 61/5)
وروي عن مجاهد رضي الله عنه أنه قال: كره رسول الله صلى الله عليه وسلم من الشاة الذكر والأنثيين والقبل والغدة والمرارة والمثانة والدم فالمراد منه كراهة التحريم بدليل أنه جمع بين الأشياء الستة وبين الدم في الكراهة، والدم المسفوح محرم.

الدرالمختار مع ردالمحتار(360/6)
فإذا ثبت كراهة لبسها ‌للتختم ثبت كراهة بيعها وصيغها لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز.

(4)
الدر المختار) 69/5(
ان جواز البيع يدور مع حل الانتفاع.

فقه البيوع( 311/1)
اما الحنفية فيجوز عندهم بيع المتنجسات والانتفاع بها في غير الاكل.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2579/8 المصباح : FDX:028
23 0