اداروں میں انتظامیہ کیلئے ملازمین کو وقت پر لانا ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔ اس کا ایک طریقہ وہی ہے جو آجکل بعض اداروں میں رائج ہوتا ہے کہ تین دن لیٹ آنے پر ایک دن کی تنخواہ کی کٹوتی کر لی جاتی ہے جس کے بارے میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ طریقہ شرعاً درست نہیں۔ اور اس کے کئی متبادل بتائے گئے ، جن پر عمل پیرا ہو کر تاخیر سے آنے والوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان متبادل طریقوں کے ساتھ ساتھ دو تین اور طریقے ہمارے ذہن میں آئے ہیں جن پر عمل کرنا بھی آسان ہے اور خاطر خواہ تنبیہ بھی ہو سکتی ہے۔
1. ایک معین جرمانہ مقرر کر دیا جائے اور تین لیٹ ہونے پر وہ رقم ان سے وصول کر لی جائے یا تنخواہ سے کاٹ لی جائےتا ہم کچھ عرصہ بعد جیسے چار پانچ ماہ بعد وہ رقم کاٹی گئی رقم کی واپسی کے عنوان سے یا کسی اور عنوان سے انہیں واپس کردی جائے۔ جبکہ انہیں رقم کی کٹوتی کے وقت یہ بالکل نہ بتایا جائے کہ کٹوتی قابل ِواپسی ہوگی۔
2. یہ ضابطہ بنا دیا جائے کہ جس ماہ میں تین مرتبہ لیٹ ہوئے اس مہینے کی کل یا نصف تنخواہ تین ماہ بعد ملے گی۔
3. یہ ضابطہ بنادیا جائے کہ جس ماہ میں تین مرتبہ لیٹ ہوئے اس مہینے سے تنخواہ ایک ہزار روپے کم ہو جائے گی۔ جیسے اگرکسی کی بیس ہزار روپے تنخواہ ہو تو اگر وہ ایک ماہ میں تین مرتبہ لیٹ ہوا تو اگلے ماہ سے آئندہ تین ماہ کیلئے اس کی تنخواہ انیسں ہزار ہو جائے گی۔
4. یہ ضابطہ بنادیا جائے کہ اگر ایک ماہ میں تین مرتبہ لیٹ ہو گئے تو سال کے آخر میں ملنے والا بونس نہیں ملے گا یا نصف ملے گا۔
بونس سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ یہ کمپنی کی طرف سے ملازمین کو دیا جانے والا صوابدیدی و اعزازی فنڈ ہوتا ہےادارے کے ذمہ لازم نہیں ہوتا ہے کہ ملازمین کو بونس دے تاہم یہ ایک اخلاقی فرض بنتا ہے۔ اس لئے عام طور پر دیاجاتا ہے۔ اور دیا اس وقت جاتا ہے جب کمپنی اپنے اہداف حاصل کرلے اور اس کو مطلوبہ نفع حاصل ہو جائے۔ بونس دیتے وقت کمپنی کو حاصل ہونے والے نفع کی شرح اور ملازم کی کار کردگی کی شرح کو بنیاد بنایا جاتا ہے اور ایک خاص طریقے سے ان دونوں کا اوسط نکال کر بونس دیا جاتا ہے)
مذکورہ بالا متبادل طریقوں کےبارے میں شرعی حکم سےآگاه فرمائیں۔
(1،2)
مذکورہ دونوں صورتیں تعزیرِ مالی کے زمرے میں آتی ہیں جن کا جواز اگر چہ امام ابو یوسف سےمنقول ہے لیکن جمہور فقہا ء نے اس کو نہیں لیا اس لئے متبادل کے طور پر یہ اختیار کر نادرست نہیں ہے، نیزاس میں یہ بھی امکان ہے کہ کسی حادثہ کی وجہ سے یہ رقم ملازم کو واپس نہ کی جاسکے اور اس کا حق مالکوں کے ذمہ باقی رہ جائے۔
(3)
اگر ابتداء عقد کرتے وقت اس بات کا معاہدہ کیا جائے کہ کسی مہینہ میں تین مرتبہ تاخیر سےآنے کی وجہ سے اگلے ماہ سے آئندہ تین ماہ کے لئے ملازم کی تنخواہ ایک ہزار کم ہو جائے گی، اور فریقین اس پررضامند ہوں تو اس کی گنجائش ہے۔
(4)
سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق بونس ادارہ کی جانب سے ملازم کے لئے ایک تبرع ہے لہذااگر تاخیر سے آنے پر بونس نہ ملنے یا نصف ملنے کا ضابطہ بنایا جائے تو یہ درست ہے البتہ بہتر یہ ہے ایک ماہ کی بجائے تین، چار ماہ میں تین، تین مرتبہ تاخیر پر مذکورہ ضابطہ بنایا جائے تاکہ ملازمین کے لئے زیادہ تنگی نہ ہو۔
حاشية ابن عابدين (4 / 61)
التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اه. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وسيذكر الشارح في الكفالة عن الطرسوسي أن مصادرة السلطان لأرباب الأموال لا تجوز إلا لعمال بيت المال: أي إذا كان يردها لبيت المال.
حاشية الصاوي على الشرح الصغير (440 / 2)
قوله: [وبالتصدق عليه بما غش]: أي وأما التعزير بأخذ المال فلا يجوز إجماعاً، وما روي عن الإمام أبي يوسف صاحب أبي حنيفة من جواز التعزير للسلطان بأخذ المال فمعناه كما قال البرادعي من أئمة الحنفية أن يمسك المال عنده مدة لينزجر ثم يعيده إليه لا أنه يأخذ لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة، إذ لا يجوز أخذ مال مسلم بغير سبب شرعي.