چند مسائل کا جواب مطلوب ہے:
1. ایک ملازم جو کہ ایک کمپنی کا پر چیز رہے یعنی کمپنی کے لئے خریداری کا کام کرتا ہے اس کا کمپنی کے سپلائرز ( جن سے خریداری کی جاتی ہے) سے ہدیہ وصول کرنا کیسا ہے، مثلا بعض سپلائر کیلنڈر ، ڈائری وغیرہ کا ہد یہ دیتے ہیں اور بعض دفعہ اس کے علاوہ کوئی قیمتی یا کم قیمت چیز ہدیہ کرتے ہیں ، اسی طرح بعض دفعہ کھانے کی دعوت کر دیتے ہیں یا بعض دفعہ نقدر قم کی شکل میں ہدیہ دیتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ چیز جو کمپنی کے لئے لی جاتی ہے اگر پر چیز ر اپنی ذات کے لئے لینا چا ہے تو سیلائرز اپنا نفع رکھے بغیر یا معمولی نفع رکھ کر وہ چیز اس پر چیزر کو دے دیتے ہیں ۔ الغرض وہ کمپنی کےپر چیزر کو ہر ممکن حد تک خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ وہ آئندہ کے لئے ہم سے ہی خریداری کرے، عمو ماًوہ ہد یہ لینے پر بہت زیادہ اصرار بھی کرتے ہیں اور وضاحت بھی کرتے ہیں کہ یہ چیز وہ صرف محبت اور تعلق کی وجہ سے دے رہے ہیں کوئی اور غرض نہیں ہے ، ایسی صورت میں ملازم( پر چیزر) کے لئے سپلائرز سے مذکورہ بالا ہدیے وصول کرنا کیسا ہے جبکہ سپلائر کی نیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ( بعض سپلائر سے دوستانہ تعلق بھی بن جاتا ہے تاہم یہ تعلق بھی کمپنی کی وجہ سے ہی بنا ہوتا ہے)
2. بعض دفعہ اچھے سپلائرز سے تعلقات بحال رکھنے کے لئے کمپنی کو بھی ان سپلائرز کو ہدیے دینا پڑتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے جبکہ باقی نوعیت وہی ہے جو کہ اوپر بیان ہوئی۔
3. ہماری کمپنی بعض دیگر بڑی کمپنیوں کو سامان فروخت کرتی ہے، بعض دفعہ ہماری کمپنی کی طرف سے خریدار کمپنی کے مالک یا ان کے ملازمین کو اپنا گاہک بر قرار رکھنے کے لئے ہدیے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ہم سے سامان خریدتے رہیں، بعض دفعہ ہم یا ہمارے مالکان احتیاطاً اس کمپنی کے مالک کے سامنےہی ان کے ملازمین کو ہدیے دیتے ہیں تاکہ پسِ پر دینے میں رشوت کا اندیشہ نہ رہے۔ اس تمام صورتحال میں ہماری نیت تقریباً یہی ہوتی ہے کہ وہ ہمارے گاہک بنے رہیں ، یا بعض دفعہ یہ نیت کہ وہ پیمنٹ ( قیمت کی ادائیگی) بروقت کردیں، البتہ بعض دفعہ تعلق بھی بن جاتا ہے اس وجہ سے بھی ہدیے دیتے ہیں، اس تمام صور تحال کا کیا حکم ہے؟
4. بعض دفعہ ہم کسی خریدار کمپنی کے ملازمین کو اس لئے ہدیے دیتے ہیں تاکہ ان کے شر سے بچا جاسکے ، اس لئے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئی سامان خریدار کمپنی کو بیچتے ہیں تو ان کے ملازمین لا پرواہی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ہمارے سامان کا وزن کم بتاتے ہیں یا اس کی کوالٹی کی کمی بیان کرتے ہیں تاکہ قیمت کم لگے۔ ایسی صورت میں ہم ان کو صحیح صورت حال بیان کرنے اور ان کے دھوکے سے بچنے کے لئے ہدیہ دیتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے؟
وضاحت : ہدیہ دینے میں گو ملازم اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ مالکان سےپوچھ کر ہدیہ دے ۔ البتہ ہد یہ لینےمیں مالکان جاننے کے باوجود چشم پوشی کرتے ہیں اگر چہ بعض اوقات دلی طور پر رضامند نہیں ہوتے ہیں پھر بھی وہ منع نہیں کرتے ۔
(1،2،3)۔۔۔ کمپنی کے ملازم کو دیے جانے والے ہدا یا عام طور پر تین قسم کے ہوتے ہیں:
1. وہ ہد یہ جو ملازم کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات کی بناء پر دیا جائے ، اس کا مال کی خرید و فروخت سے کوئی تعلق نہ ہو، یعنی اگر ملازم کمپنی چھوڑ کر کسی اور جگہ چلا جائے اور وہ ہدیہ دینے والے شخص سے مال نہ خریدے تو بھی ایک دوسرے کو ہد یہ لینے دینے کاسلسلہ جاری رہے۔
2. ہدیہ دینے کا مقصد خریدار کے ساتھ کاروباری مراسم اور خرید و فروخت کے تعلقات بڑھانا ہو ، تا کہ اس کا اعتماد برقرار رہےاور وہ اس کمپنی سے خرید و فروخت کرتا رہے، نیز ہدیہ دینے کی وجہ سے ریٹ میں کوئی کمی بیشی نہ کی جائے اور اس کمپنی کی کوالٹی بھی ملازم کی کمپنی کی شرائط کے مطابق ہو۔
3. ہدیہ دینے کا مقصد تو یہی ہو کہ ہماری کمپنی سے ہی مال خریدا جائے اور اس کمپنی کے مال کی کوالٹی باقی کمپنیوں کی کوالٹی سےکم ہو یا کوالٹی تو باقی کمپنیوں کی پروڈکٹس کی طرح ہی ہو ، مگر اس کا ریٹ عام کمپنیوں سے زیادہ ہو۔
پہلی قسم کا ہدیہ دینا اور لینا جائز ہے، دوسری قسم کے ہدیے کا حکم یہ ہے کہ اگر کمپنی کا ملازم و یا ننداری کے ساتھ کام کرتا ہے، ہدیہ لینے کی وجہ سے ریٹ میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتا، بلکہ ہدیہ دینے والی کمپنی سے بھی مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی مال خریدتا ہے اور اس ہدیہ کی وجہ سے اس کمپنی سے مال خریدنے کا پابند نہیں ہوتا، بلکہ وہ آزادانہ طور پر کہیں سے بھی مال خرید سکتا ہے۔ تو ایسی صورت میں اس کوہد یہ لینے کی بھی گنجائش ہے۔ جہاں تک ہدیہ دینے کا تعلق ہے تو اس کے لیے مالکان کی طرف سے صراحتاً یادلالتاًاجازت کا ہوناضروری ہے، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے۔
نیز یہ بات یادر ہے کہ اس صورت میں معمولی قسم کا ہدیہ جیسے کیلنڈر اور ڈائری وغیرہ تو عرف کی بناء پر ملازم اپنے پاس رکھ سکتاہے، لیکن اگر گراں قیمت ہد یہ ہو اور ملازم سمجھے کہ یہ ہد یہ کمپنی کی وجہ سے ہی مجھے دیا گیا ہے تو اس صورت میں مذکورہ ہدیہ کےمستحق کمپنی کے مالکان ہوں گے ۔ البتہ اگر مالکان کی طرف سے ہر قسم کا ہد یہ ملازم کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہو تو یہ ہد یہ بھی ملازم کی ملکیت ہو گا۔
جہاں تک تیسری قسم کے ہدایا کا تعلق ہے تو ایساہد یہ دینا اور لینا دونوں جائز نہیں، کیونکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ملازم ہدیہ وصول
کرنے کی وجہ سے کوالٹی کم یاریٹ زیادہ ہونے کے باوجود بھی اسی کمپنی سے مال خریدے، جبکہ ملازم کا کمپنی کی شرائط سے کم کو الٹی والا مال خرید نا یا عام ریٹ سے زیاد ہ ریٹ پر خرید نا کمپنی کے ساتھ خیانت اور دھوکہ دہی ہے اس لیے ایسا ہد یہ رشوت کے حکم میں ہے۔ لہذا اگر کسی ملازم نے ایسی صورت میں ہدیہ لے لیا تو اسی شخص کو واپس کرنا ضروری ہے جس کی طرف ہدیہ دیا گیا ہے۔ نیز اللہ
تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنا اور آئندہ کے لیے اس سے اجتناب لازم ہے۔
(4)۔۔۔ ایسا ہد یہ بھی دینا اور لینا جائز نہیں ، کیونکہ اس کمپنی کے ملازمین کی ذمے داری ہے کہ وہ مال کا صحیح وزن اور درست کوالٹی بتائیں، یہ دونوں باتیں ان کی ڈیوٹی میں شامل ہیں، اس کام کے لیے ان کا کسی سے کوئی چیز لینار شوت ہے ، اور حدیث کی رو سے رشوت دینا اور لینا دونوں حرام ہیں، لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ ایسی صور تحال میں اس کمپنی کے مالکان کو ان کے ملازمین کے مذکورہ عمل کی اطلاع دی جائے یا اس کمپنی کو مال فروخت ہی نہ کیا جائے۔
العناية شرح الهداية (7 / 271)
قال (ولا يقبل هدية إلا من ذي رحم محرم أو ممن جرت عادته قبل القضاء بمهاداته) لأن الأول صلة الرحم والثاني ليس للقضاء بل جرى على العادة، وفيما وراء ذلك يصير آكلا بقضائه.
حاشية ابن عابدين(5/372)
ذكره البخاري، واستعمل عمر أبا هريرة فقدم بمال فقال له من أين لك هذا؟ قال: تلاحقت الهدايا فقال له عمر أي عدو الله هلا قعدت في بيتك، فتنظر أيهدى لك أم لا فأخذ ذلك منه، وجعله في بيت المال، وتعليل النبي صلى الله عليه وسلم دليل على تحريم الهدية التي سببها الولاية .
التيسير بشرح الجامع الصغير - للمناوي - (1 / (233)
(أفلا قعد في بيت أبيه أو أمه فينظر هل يهدى له) بالبناء للمجهول (أم لا) ثم أقسم على أن المأخوذ على الوجه المذكور غلول فقال (فوالذي نفس محمد بيده) بقدرته وتصريفه (لا يغل أحدكم) بغين معجمة من الغلول وهو الخيانة (منها) أي الصدقة (شيأ) ولو تافها حقيرا كما يفيده التنكير (إلا جاء به يوم القيامة) حال كونه (يحمله على عنقه) ومن يغلل يأت بما غل يوم القيامة .
فتح القدير (7 /254)
الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة لا يصير قاضيا. الثاني ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك حرام من الجانبين ثم لا ينفذ قضاؤه في تلك الواقعة التي ارتشى فيها سواء كان بحق أو بباطل. أما في الحق فلأنه واجب عليه فلا يحل أخذ المال عليه.
شرح النووي على مسلم (12 /114)
وقال أصحابنا متى أخذ القاضي أو العامل هدية محرمة لزمه ردها إلى مهديها فإن لم يعرفه وجب عليه أن يجعلها في بيت المال والله أعلم.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (4 /199)
ولذا قال في البدائع لو استأجرها للطبخ والخبز لم يجز ولا يجوز لها أخذ الأجرة على ذلك؛ لأنها لو أخذت لأخذت على عمل واجب عليها في الفتوى فكان في معنى الرشوة فلا يحل لها الأخذ اهـ.
إتحاف الخيرة المهرة ( 5 / (392
عن ثوبان رضي الله عنه قال: "لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي والرائش- يعني الذي يمشي بينهما".