ہماری ایک فیکٹری ہے اور اس کے لئے ہم بڑے پیمانے پر خام مال منگواتے ہیں۔ جب مال ہمارے پاس پہنچتا ہے تواس میں کبھی کبھار کوئی خرابی یا عیب نکل آتا ہے یاوہ مطلوبہ صفات کا حامل نہیں ہوتا ایسی صورت میں ہمیں کئی مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ ہمارا اصول ہے کہ اجناس وغیرہ میں 3 تا 5 فیصد کچر ا عیب شمار نہیں کرتے مثلاً اگر ہم نے گندم خریدی تو اتنی بات تو قابلِ برداشت ہوتی ہے کہ اس میں سے تین سے پانچ فیصد تک کچرا موجود ہو، لہذا جب ان کا بھیجا ہوا مال کمپنی پہنچتا ہے توگاڑی اتارنے سے پہلے ہی کوالٹی چیک کی جاتی ہے جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ٹرک پر اگر 100 بوریاں لدی ہوئی ہوں تومختلف بوریوں سے چار پانچ نمونے لے کر چیک کر لیا جاتا ہے ، اگر اس مذکورہ مقدار کے بقدر ہی کچرا موجود ہوا تو مال اسی طرح قبول کر لیا جاتا ہے کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ بعض دفعہ دس فیصد تک کچرا موجود ہوتا ہے، ایسی صورت میں وہ مال وہیں روک لیا جاتا ہے۔
اب ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ سامان ان کو بالکل واپس کر دیا جائے یا انہیں کہا جائے کہ صاف کر کے لےآئیں، مگر اس میں عموماً مشکلات اور جانبین کیلئے پریشانیاں ہوتی ہیں اس لئے خریداری کا معاملہ کرنے کیلئے سپلائر کے ساتھ یہ معاملہ کیا جاتا ہے کہ جس حد تک کچرامعاف ہوتا ہے اس سے زائد اندازہ شدہ اضافی کچرے (مثلاً پانچ فیصد ) کے حصے کے بقد روزن کم شمار کیا جائے اور مال قبول کر لیا جائے اور حتمی معاملہ کرتے وقت اس کا وزن کم لکھا جائے۔ مثلاً اگر 100 من وزن میں دس فیصد کچر انکلا تو اس میں سے پانچ من تو وہ ہو گیا جس کی چھوٹ دی گئی ہے اور باقی پانچ من اضافی ہوا، اس لئے ہم یوں کرتے ہیں کہ ہم اس کا وزن کم شمار کر کے 95 من کے حساب سے ادا ئیگی کرتے ہیں اور یہ سب سپلائر کی رضامندی سے ہی کیا جاتاہے۔ (اگرچہ ایسا بھی ممکن ہے کہ بعد میں یہ کچرامزید نکلے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پانچ من کے بجائے تین من تک ہی نکلے ، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم نے تو چند بوریوں کو ہی چیک کیا ہوتا ہے اور ان سے کچرے کی حتمی اور یقینی مقدار متعین کرنانا ممکن ہوتا ہے البتہ قریب قریب اندازہ ہو جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہےکہ:
1. درج بالا صورت کا شرعاً کیا حکم ہے؟ نیز یہ بھی واضح رہے کہ یہاں خرید و فروخت کے معاملات دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم مال کا سودا کر چکے ہوتے ہیں اور پھر جب مال پہنچتا ہے تو اس کو چیک کیا جاتا ہے ، اور بعض اوقات Purchase Order دے کر مال منگوالیتے ہیں، اور مال چیک کرنے کے بعد پھر سودا کیا جاتا ہے ، دونوں صورتوں میں شرعی حکم کیا ہو گا ؟
2. اگر سپلائر کو کسی عیب کی وجہ سے سامان واپس کیا جائے تو واپسی کا خرچہ کس کے ذمہ ہو گا؟ واضح رہے کہ آج کل تجارتی اداروں اور کمپنیوں میں معروف یہی ہے کہ ایسا خرچہ سامان بھیجنے والا ( بیچنے والا) ہی اٹھاتا ہے۔
(1)۔۔۔ صورت مسئولہ میں مال فروخت کرنے والے کی رضامندی سے سوال میں ذکر کر دہ طریقہ اختیار کیا جاجاسکتا ہے۔اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اب تک خرید و فروخت کا معاملہ نہیں ہوا ہے بلکہ مال چیک کرنے کےبعد با قاعده خرید و فروخت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں فریقین کو قیمت کی کمی بیشی کروانے کا اختیار ہوتا ہے، لہذااگر بائع اپنی رضامندی سے سو من وزن والے مال کو 95 من وزن کے حساب سے فروخت کرنے پر راضی ہو جائے تو شرعاً ممنوع نہیں ہے۔
اور اگر خرید و فروخت کا معاملہ مال آنے سے پہلے ہی مکمل ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں معروف مقدارسے زائد کچرا نکلنا عیب ہے، لہذا اگر مال خریدتے وقت آپ کو علم نہ ہو اور بائع نے تمام عیوب سے براءۃ کی شرط بھی نہ لگائی ہو تو ایسی صورت میں خریدار کو بائع کی رضامندی کے بغیر قیمت کم کروانے کا اختیار نہیں ہوتا، بلکہ خریدار یا تو پوری ہی قیمت ادا کر کے مال لے لے، یا اپنی رقم واپس لے لے اور مال نہ لے ، اور اگر عیب والا مال لےلیا ہو تو اسے واپس کر دے، لیکن اس صورت میں اگر بائع عیب دار مبیع واپس نہ لے اور اپنی خوشی ورضامندی سےعیب کی وجہ سے اپنے مال کی قیمت کم کرنے پر راضی ہو جائے تو جائز ہے۔(1)
(2)۔۔۔ اگر خرید و فروخت کا معاملہ مال چیک کرنے کے بعد ہو تو عیب کی وجہ سے سامان واپس کرنے کا خرچہ سامان فروخت کرنے والے کے ذمہ ہوگا، لیکن اگر خرید و فروخت کا معاملہ مکمل ہو چکا ہو اور عیب کی وجہ سے سامان واپس کرنا پڑ جائے تو اس صورت میں واپسی کا خرچہ شرعاً خریدار کے ذمہ ہو گا، تجارتی اداروں اور کمپنیوں کے عرف کی وجہ سے بائع کو واپسی کے خرچہ کی ادائیگی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ اگر بائع اپنی خوشی و رضامندی سے واپسی کا خرچہ خود برداشت کر لے تو کر سکتا ہے۔(2) (ماخذ الشق الثانی تبویب: 47/ 1439)
(1)
الهداية شرح البداية (3 / 60)
قال ويجوز للمشتري أن يزيد للبائع في الثمن ويجوز للبائع أن يزيد للمشتري في المبيع ويجوز أن يحط من الثمن ويتعلق الاستحقاق بجميع ذلك فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا.
الهداية شرح البداية (3 / 35)
وإذا اطلع المشتري على عيب في المبيع فهو بالخيار إن شاء أخذه :وإن شاء رده لأن مطلق العقد يقتضي وصف السلامة فعند فواته يتخير كي لا يتضرر بلزوم ما لا يرضى به وليس له أن يمسكه ويأخذ النقصان لأن الأوصاف لايقابلها شيء من الثمن في مجرد العقد ولأنه لم يرض بزواله عن ملكه بأقل من المسمى فيتضرر به ودفع الضرر عن المشتري ممكن بالرد بدون تضرره والمراد به عيب كان عند البائع ولم يره المشتري عند البيع ولا عند القبض لأن ذلك رضابه.
شرح المجله ( 293/2)
وليس له ان يمسك المبيع وياخذ ممانقصه العيب الابرضا بايعه (ملتقى)... یعنی اذارضى البائع ان يدفع للمشترى دراهم عن نقصان العيب ولا يرد عليه المبيع المعيب يجوز و يجعل حطا من الثمن.... الخ
(2)
الفتاوى الهندية - (613)
(الفصل الأول في كيفية ثبوت الخيار واحكامه)ومونة رد المبيع بعیب أو بخيار شرط أو رؤية على المشتري.
الدر المختار (4 / 594)
( وله ) أي للمشتري ( أن يرده إذا رأه ) إلا إذا حمله البائع لبيت المشتري فلايرده إذا رأه إلا إذا أعاده إلى البائع أشباه.
حاشية ابن عابدين- (4 / 594)
(قوله: إلا إذا حمله البائع إلخ) في البحر عن جامع الفصولين: شراه وحمله البائع إلى بيت المشتري فرآه ليس له الرد؛ لأنه لو رده يحتاج إلى الحمل فيصير هذا كعيب حدث عند المشتري، ومؤنة رد المبيع بعيب أو بخيار شرط أو رؤية على المشتري، ولو شرى متاعا وحمله إلى موضع فله رده بعيب ورؤية لو رده إلى موضع العقد وإلا فلا. اهـ. وظاهر أنه إنما يرده لو رده إلى موضع العقد فيما لو حمله المشتري بخلاف البائع، وهو خلاف ما نقله الشارح عن الأشباه. والذي يظهر " عدم الفرق وأن ما ذكره من قوله لأنه لو رده إلخ غير ظاهر، لأنه لا يناسبه قوله: بعده ومؤنة الرد على المشتري فافهم.
ثم رأيت صاحب نور العين اعترض التعليل المذكور بما ذكرته، ثم إنه يستفاد من كلام الفصولين أن ما أنفقه البائع على تحميله إلى منزل المشتري لا يلزم المشتري إذا رد عليه المبيع إلى محل العقد؛ لأن البائع متبرع بما أنفقه لأن الواجب عليه التسليم في محل العقد دون التحميل، وبه يظهر جواب حادثة الفتوى اشترى حديدا لم يره وشرط على البائع تحميله إلى بلدة المشتري ثم رآه فلم يرض به وأراد فسخ البيع لخيار الرؤية أو بفساد العقد بسبب الشرط المذكور. والجواب أنه يلزمه تحميله إلى بلدة البائع ليرده عليه وإن كان الرد بسبب الفساد، لما صرح به في جامع الفصولين أيضا من أن مؤنة رد المبيع فاسدا بعد الفسخ على القابض.
شرح المجلة للأناسي (2/ 269)
والتنبيه تحت المادة 320
يشترط للفسخ علم البائع ،به اي بالفسخ خوف الغرر، أي غرر البائع يسبب اعتماده على شرائه فلا يطلب لسلعته مشتريا أخر، وكذا رده إلى موضع العقدسواء حمله هو من موضع العقد إلي منزله أو حمله له البائع، لأن مؤنة رد المبيع بعيب أو خيار شرط أو رؤية علي المشتري (افاده في الدر وحواشيه)
قال في رد المحتار: ثم إنه يستفاد من كلام الفصولين أن ما أنفقه البائع على تحميله إلى منزل المشتري لا يلزم المشتري إذا رد عليه المبيع إلى محل العقدة لأن البائع متبرع بما أنفقه لأن الواجب عليه التسليم في محل العقد دون التحميل، وبه يظهرجواب حادثة الفتوى اشترى حديدا لم يره وشرط على البائع تحميله إلى بلدةالمشتري ثم رأه فلم يرض به وأراد فسخ البيع لخيار الرؤية أو بفساد العقد بسبب الشرط المذكور، والجواب أنه يلزمه تحميله إلى بلدة البائع ليرده عليه وإن كان الرد بسبب الفساد، لما صرح به في جامع الفصولين أيضا من أن مؤنة رد المبيع فاسدا بعد الفسخ على القابض اه.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1 / 283)
الفصل السادس في بيان عيار العيب ...... - خلاصة الفصل....... 7 مؤنةرد المبيع خيار العيب تلزم المشتري.