Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


سپلائرکامال فروخت کرتے وقت عیب سے براءت کی شرط لگانا


سوال

ہماری ایک فیکٹری ہے اور اس کے لئے ہم بڑے پیمانے پر خام مال منگواتے ہیں۔ جب مال ہمارے پاس پہنچتا ہے تو کوالٹی کاشعبہ مال چیک کرتا ہے۔ اگر مال مطلوبہ صفات کا حامل ہو تو بل بنادیا جاتا ہے ورنہ واپس کر دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار یوں ہوتا ہے کہ شعبہ کوالٹی نے مال چیک کر کے ٹھیک قرار دے دیا اور بیچنے والے کو وصولی کی رسید (receiving note goods) بھی بنا کر دے دیا گیا گویا خرید و فروخت کا معاملہ مکمل طے پا گیا، مگر بعد میں جب مال کھولا گیا تو اندازہ ہوا کہ اس کا وہ معیار نہیں جو مطلوب تھا یا اس میں کچرا بہت زیادہ ہے۔ وہ مال اگر چہ ہمارے ہاں کو الٹی والوں نے چیک کر لیا تھا مگر چونکہ وہ سارا مال چیک نہیں کر پائے بلکہ مختلف بوریوں سے چار پانچ نمونے لے کر چیک کرتے ہیں جن سے کچرے کی حتمی اور یقینی مقدار متعین کرنانا ممکن ہوتا ہے البتہ قریب قریب اندازہ ہو جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں سپلائر سے رابطہ کر کے اسے صورت حال سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔تو سپلائرمندرجہ ذیل صورتوں میں سے کسی ایک پر راضی ہو جاتا ہے :

1. جتنا کچرا بنتا ہے وہ اسے واپس کر دیا جائے اور اتنی مقدار میں وہ ہمیں صحیح مال لا کر دے۔
2. قیمت میں کمی کر دی جاتی ہے ، اگر چہ پہلے اس چیز کا سودا مکمل ہو چکا تھا مگر اس کچرے کے سبب ہم گویا اس سابقہ معاملے کوختم کر کے نیا معاملہ کرتے ہیں۔ مثلاً اگر وہ چیز ہم نے ہزار روپے من خریدی تھی تو باہمی رضامندی سے اس کا ریٹ 980روپے لگا لیتے ہیں اور اسی حساب سے اسے ادا ئیگی کی جاتی ہے۔
3. یا اس اضافی پانچ فیصد کچرے کے حصے کے بقدر وزن کم شمار کیا جائے یعنی پہلے جتنے وزن کے حساب سے بل بنایا تھا اس میں سے کچرے کی مقدار کے بقدر وزن کم شمار کر کے نیا بل بنادیا جاتا ہے۔
4. یا اگر سامان بوریوں میں آیا ہو تو مثلاً 100 بوریوں میں سے جتنی بوریاں صحیح ہیں وہ تو رکھ لی جائیں اور جتنی خراب ہوں یاتو وہ واپس کر دی جائیں اور ان کے بدلے وہ نیامال لا دے۔

اب درج ذیل سوالوں میں رہنمائی مطلوب ہے:
1. مال اچھی طرح چیک کر کے قبول کرنے کے بعد بھی اگر کوئی عیب نکل آئے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ اور عیب کیلئے بیچنے والے کو ذمہ دار قرار دیناشر عاًدرست ہو گا یا نہیں ؟ واضح رہے کہ سپلائر اس نقصان یا عیب کی کمی کوپورا کرنے کیلئے خوشی خوشی راضی بھی ہو جاتا ہے۔
2. مندرجہ بالا ( چاروں ) صورتوں کا کیا حکم ہے؟
3. اگر شروع میں خرید و فروخت کا معاہدہ کرتے وقت ہی یہ شرط لگادی جائے کہ اگرچہ ہم نے چیک کر لیا ہے تاہم بعد میں بھی اگر کوئی ایسا عیب نکل آیا جو پہلے سے موجود ہوا تو اس کی ذمہ داری بیچنے والے ہی کی ہو گی۔ ایسی شرط لگانے کا کیا حکم ہو گا ؟

جواب

(1)۔۔۔ خریداری کے وقت مال چیک کرنے کے باوجود اگر اس میں کوئی ایسا عیب نکل آئے جو بائع کے پاس سے آیا تھامگر چیک کرتے وقت ظاہر نہیں ہوا تھا اور وہ عیب ایسا ہو جس کی وجہ سے تاجروں کے عرف میں اس مال کی قیمت کم ہو جاتی ہو تو اس صورت میں عیب کا ذمہ دار بائع (سپلائر )ہوگا اور خریدار کیلئے اس عیب کی بناء پر مال واپس کرنا یا باہمی رضامندی سے مال واپس کئے بغیر محض نقصان کی تلافی کر لینا جائز ہے۔(1)

(2)۔۔۔خریدے ہوئے سامان میں عیب ظاہر ہونے کی صورت میں خریدار کو شر عاًصرف یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ یا تو سار ا سامان واپس کر دے یا بائع ( سپلائر) کی بتائی ہوئی قیمت پر اسے قبول کرلے۔ سپلائر کی رضامندی کے بغیر محض صحیح مال کو رکھ کر صرف عیب دار مال واپس کر دینا یا سار مال رکھ کر کم قیمت ادا کرنا جائز نہیں ہوتا۔ تاہم سوال میں ذکر کردہ چاروں صورتوں میں اگرقیمت میں کمی یا محض عیب دار مال کی واپسی سپلائر کی رضامندی سے ہو تو ان صورتوں کو اختیار کرنا بھی جائز ہے۔(2)

(3)۔۔۔ جی ہاں! یہ شرط لگانا جائز ہے، بلکہ اگر خریدار یہ شرط نہ بھی لگائے جب بھی شرعاً اس کو یہ حق حاصل ہے کہ عیب ظاہر ہونے کی صورت میں وہ خریدا ہوا سامان واپس کر دے، بشر طیکہ وہ عیب یا کوئی دوسرا عیب مشتری کے پاس آکر پیدانہ ہوا ہو۔ البتہ اگر سامان فروخت کرنے والا یہ کہہ دے سامان ابھی چیک کر لو۔ بعد میں اگر کوئی عیب ظاہر ہوا تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا تو اس صورت میں بعد میں عیب ظاہر ہونے کی صورت میں وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہو گا۔(3)

(1)
رد المحتار (4 / 596)
قال في الفتح: فإن دخل في البيع أشياء، فإن كانت الآحاد لا تتفاوت كالمكيل والموزون، وعلامته أن يعرض بالنموذج فيكتفى برؤية واحد منها في سقوط الخيار إلا إذا كان الباقي أردأ مما رأى فحينئذ يكون له الخيار: أي خيار العيب لا خيار الرؤية ذكره في الينابيع. وعلل في الكافي بأنه إنما رضی بالصفة التي رآها لا بغيرها، ومفاده أنه خيار الرؤية وهو مقتضى سوق كلام المصنف أي صاحب الهداية والتحقيق أنه خيار عيب إذا كان اختلاف الباقي يوصله إلى حد العيب، وخيار رؤية إذا كان لا يوصله إلى اسم المعيب بل الدون، وقد يجتمعان فيما إذا اشترى ما لم يره فلم يقبضه حتى ذكر له البائع به عيبا ثم أراه المبيع في الحال. اهـ. وأقره في البحر.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1 / 324)
المادة (٣٢٥) ما بيع على مقتضى الأنموذج إذا ظهر دون الأنموذج يكون المشتري مخيرا إن شاء قبله وإن شاء رده مثلا الحنطة والسمن والزيت وما صنع على نسق واحد من الكرباس والجوخ وأشباهها إذا رأى المشتري أنموذجها ثم اشتراها على مقتضاه فظهرت أدنى من الأنموذج يخير المشتري حينئذ إذا ظهر المبيع أدون من الأنموذج أو من بعض المبيع الذي رآه المشتري فالمشتري يكون مخيرا بخيار العيب فيماراه نموذجا وفيما لم يره وله قبول المبيع بجميع الثمن المسمى أو رده وفسخ البيع.

(2)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1 / 335)
صاحب خيار العيب له قبول المبيع بثمنه المسمى كله وليس له إمساكه ونقص الثمن بما يقابل العيب إلا إذا رضي البائع أو كان ثمة مانع من الرد لأنه ليس للأوصاف حصة من الثمن.

رد المحتار (5 / 26)
اشترى أقفرة حنطة أو سمسم فوجد فيه ترابا، إن كان يوجد مثله في ذلك عادة لايرد، وإلا فإن أمكنه رد كل المبيع يرده، ولو أراد . حبس الحنطة ورد التراب أو المعيب مميزا ليس له ذلك فإن ميز التراب وأراد أن يخلطه ويرد إن أمكنه الرد على ذلك الكيل رده وإلا بأن نقص من ذلك الكيل شيء لا ورجع بنقصان الحنطة إلا أن يرضى البائع بأخذها ناقصة بزازية وفي الخانية لو لم يعد ذلك التراب عيبا فلا رد.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1 / 337)
إذا ظهر في الحنطة وأمثالها من الحبوب تراب فإن يسيرا عفي وإن كثيرافالمشتري مخير.

(3)
رد المحتار (5 / 3)
ثم إن خيار العيب يثبت بلا شرط.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1 / 335)
يثبت خيار العيب من غير شرط وبلا مدة.

الدر المختار (5 / 42)
(وصح البيع بشرط البراءة من كل عيب وإن لم يسم. . ويدخل فيه الموجود والحادث)بعد العقد (قبل القبض فلا يرد بعيب )..........واللہ تعالی اعلم


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 4/1675 المصباح : SF:009
18 0