Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


بیرون ممالک میں رقم ڈوبنے کے خطرے سے بچنے کیلئے تکافل پالیسی لینا


سوال

دبئی میں ہمارا اجناس کا کاروبار ہے۔ وہاں بڑی بڑی پارٹیوں کے ساتھ اکثر اوقات ادھار پر معاملات چل رہے ہوتے ہیں اور ہم ادھار پر مال دیتے رہتے ہیں اور یہ ادھار عموماً 60دن کی مدت کا ہوتا ہے۔باوجود اعتماد کے ہمیں اس بات کا شدیدخطرہ ر ہتا ہےکہ کسی بھی وقت ہمارا خریدار غائب ہو جائے اور ہماری ساری رقم ڈوب جائے۔ اس قسم کے کئی واقعات پہلےوہاں پیش آچکے ہیں۔ اس خطرے سے بچنے کیلئے وہاں کی انشورنس کمپنیوں نے یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ قرض اورمدت کے حساب سے گارنٹی لے لیتے ہیں کہ اگر اس خریدار نے اتنی مدت میں رقم نہ دی تو یہ ر قم ہم آپ کو دیں گے اور اس کے بدلے میں وہ اپنی فیس لیتے ہیں۔

مزید وضاحت یہ کہ مثلا اگر ہم دس ہزار درہم کے چاول بیچتے ہیں اور اس کی انشورنس کرواتے ہیں تو جب یہ رقم وصول ہوگی اس وقت ہمیں اس کے بدلے میں کل رقم کا 7 فیصد انشورنس کمپنی کو دینا ہو گا۔ اسی طرح اگر ایک کروڑ درہم کی ضمانت لیتے ہیں تو جب کل رقم وصول ہو گی اس کا چار فیصد انشورنس والوں کو دینا ہو گا۔ اور اگر ہمارا خرید ار غائب ہو گیا یا بروقت رقم ادا نہ کر سکا تو انشورنس کمپنی ہمیں وقت پورا ہونے پر اپنی طرف سے رقم دیدے گی اور اس میں سے اپنی طے شدہ فیس کاٹ لے گی۔ ہمیں ہر صورت میں ہماری رقم واپس مل جائے گی اگر چہ اور رقم انہیں ملے یانہ ملے، ہمیں اس سے غرض نہیں ہوتی۔ یہ انشورنس کروانا کاروباری طبقے کی مجبوری ہے اور اس ضمانت سے انہیں بہت آسانی ہو جاتی ہے ، ورنہ تو ہر وقت پیسے ڈوبنے کا ڈررہتا ہے۔اس صور تحال کے پیش نظر میر اسوال یہ ہے کہ کیا اس طرح اپنے پیسوں کی ضمانت لینا جائز ہے ؟

جواب

گارنٹی کی سہولت فراہم کرنا شرعاً ”عقدِ کفالہ“ کہلاتا ہے ، جو کہ فی نفسہ جائز ہے ، لیکن چونکہ ”کفالہ “عقد ِتبرع ہے ، اس لئے اس کے بدلے اجرت (فیس) وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ گارنٹی دینے پر جو حقیقی اخراجات ہوں وہ کمپنی آپ سے وصول کر سکتی ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں انشورنس کمپنی کے لئے حقیقی اخراجات کے علاوہ گارنٹی دینے کے بدلے فیس لینا اور آپ کے لیے دینا جائز نہیں ہے۔ تاہم اگر کسی ایسی تکافل کمپنی یا غیر سودی بینک سے گارنٹی کا معاملہ کیا جائے جو مستند علماء کرام کی زیر نگرانی شرعی اصولوں کے مطابق کام کر رہا ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

كتاب المعايير - (ص: 27)
٥/١/٣ لا يجوز أخذ الأجر ولا إعطاؤه مقابل مجرد الكفالة مطلقا، ويحق للكفيل اسيتفاء المصروفات الفعلية للكفالة، ولا يلزم المؤسسة الاستفسار عن كيفية الحصول على الكفالة المقدمة إليها من العميل.والله سبحانه وتعالى الاعلم بالصواب


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 1925/3 المصباح : SF:032
16 0