ہماری ایک فیکٹری ہے ، اور اس کیلئے ہم بڑے پیمانے پر خام مال منگواتے ہیں۔ اور صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ جب ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم اپنے سپلا ئر سے رابطہ کرتے ہیں، وہ پہلے ہمیں اپنے پاس موجود مال کا نمونہ بھیجتا ہے، اور پھر اس نمونہ کی بناء پر ہم مال منگوانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ہم سپلائر سے رابطہ کر کے ریٹ، مال کی مقدار، بھیجنے کی مدت اور پیسوں کی ادائیگی کی تاریخ وغیرہ سب عموماً فون پر ہی طے کر لیتے ہیں، اور پھر اسے پر چیز آرڈر (P.O: Purchase Order) بھجوادیےہیں، جس میں فون پر ہونے والی تمام باتیں درج ہوتی ہیں۔
یہ پر چیز آرڈر (P.O) ہر ایک کو بھجوانا لازمی نہیں، پرانے سپلائر کے ساتھ تو فون پر ہی بات چیت کافی ہوتی ہے، البتہ جو نیا آدمی ہو یا مطالبہ کرے تو اس کیلئے پر چیز آرڈر (P.O) بھجوا دیا جاتاہےبہر حال پر چیز آرڈر (P.O) ایک اہم ڈاکو منٹ ہے،یہ بنانا اس لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ جو چیز ہم نے منگوائی ہے وہ ریکارڈمیں آجائے (P.O)میں سامان بھجوانےکی تاریخ وغیرہ بھی درج کر دی جاتی ہےجب مال تیار ہو کر آجاتا ہے، اور ہمارے پاس پہنچ جاتا ہے، اور وہاں کوالٹی چیک کا نمائندہ چیک کر کے جب درست قراردے دیتا ہے تو پھر جی آر این (Goods Receiving Note) یعنی سامان کی وصولی کی رسید بنا کر دیدی جاتی ہے۔ جی آر اینReceiving Note Goods ( سامان وصولی کی رسید ) میں مکمل تفصیل لکھی ہوتی ہے کہ کتنا مال ہے ، اور کیا ریٹ ہےوغیرہ اور پھر وہ سپلا ئر اس جی آر این کے ذریعہ اپنا بل وصول کر لیتا ہے۔
کسی شخص کو جب پر چیز آرڈر (P.O) جاری کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اس قسم کی خریداری کے معاملات میں اگر چہ با قاعدہ طور پر معاہدہ کی شکل میں طے نہیں کی جاتیں، تاہم وہ معروف اور فریقین کے درمیان جانی پہچانی (Understood) ہونے کی وجہ سے خریدار اور فروخت کنندہ کے ذہن میں ہی ہوتی ہیں، جیسے یہ کہ مال جب تک کمپنی کے گیٹ کے اندر پہنچ کر چیک نہیں ہو جائے گا اس وقت تک بھیجنے والے کے ہی ضمان میں ہو گا یعنی اگر راستے میں مال لوٹ لیا گیا یاکوئی نقصان ہو گیا تو کمپنی کا نقصان نہیں ہو گا، بلکہ مال فراہم کنندہ (Vendor) کا نقصان شمار ہو گا۔ اسی طرح جب تک کمپنی اس مال کی کوالٹی چیک نہیں کرلے گی، اور جو نمونہ (Sample) بھیجا گیا ہے اس میں اور پہنچنے والے مال میں مطابقت نہیں جانچ لے گی،اس وقت تک وہ مال خریدار کا ہی تصور ہو گا۔ اور اگر وہ مال مطلوبہ صفات کا نہ ہو ، یا اس میں کوئی دھوکہ دہی کی کوشش کی گئی ہوگی توکمپنی کو اختیار ہو گا کہ وہ سارا مال واپس کر دے، اور فراہم کنندہ (Vendor) اس پر اعتراض نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کی طرف سےکوتاہی پائی گئی ہے ، اور اس نے مال نمونہ کے مطابق یا وعدے کے مطابق نہیں بھیجا۔
اس قسم کی شرائط زبانی کلامی طے ہوتی ہیں، اور لکھی ہوئی نہیں ہو تیں، اور زبانی بھی صرف اس وقت دہرانے کی ضرورت پڑتی ہے جب کسی نئے سپلائر کے ساتھ معاملہ کیا جارہا ہو ، ورنہ جن کے ساتھ سالہا سال سے معاملات چل رہے ہیں ان کوان باتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ، اور وہ ان پر راضی ہوتے ہیں۔
اس تمام تر صورت حال کے تناظر میں درج ذیل سوالات میں شرعی رہنمائی درکار ہے:
1. مذکورہ بالا صورتِ حال کے پیشِ نظر پر چیز آرڈر ٹرمز اینڈ کنڈیشنز (Purchase Order Terms and Conditions)کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
2. پر چیز آرڈر (Purchase Order) کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟کیا اسے بیع کا ایجاب قرار دیاجا سکتا ہے ؟
3. جی آر این (GRN: Goods Receiving Note) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اسےبیع کا قبول قرار دیا جا سکتا ہے ؟
4. اس معاملہ کو کب مکمل سمجھا جائیگا ؟ سامان ہماری ذمہ داری میں کب آئےگا؟
5. سپلائر سامان تو اسی وقت کے مطابق بھیج دیتا ہے جس وقت کا اسے کہا گیا ہوتا ہے، مگر بعض اوقات ہمارے گودام میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس ٹرک کو اپنے ہاں نہیں اتار سکتے ، اور وہ باہر کھڑا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں اگربارش ہو جائے اور وہ سامان بھیگ کر خراب ہو جائے تو کس کا نقصان شمار ہو گا، اور اسکی ذمہ داری کس پر آئے گی ؟ یا اسی طرح ایک دوروز تک ہماری طرف سے تاۣخیر ہونے کے سبب رکے رہنے کی وجہ سے سپلائر کا جو خرچہ آئےگا وہ کس کے ذمہ ہو گا ؟
(1،2)۔۔۔سوال کے ساتھ منسلکہ خریداری کے آرڈر (Purchase Order) میں مبیع، اس کی تعداد اور نرخ وغیرہ جیسی خصوصیات مذکور ہیں، اور اس کے ساتھ انتظامی شرائط پر مشتمل Purchase Order/Service Order Terms and Conditions نامی دستاویز انتظامی شرائط پر مشتمل ایک مفاہمتی دستاویز ہے جسے آئندہ کےمعاملات میں ملحوظ رکھا جائےگا۔
مذکورہ دونوں کاغذات کا شرعی حکم یہ ہے کہ ان میں ایسی کوئی بات مذکور نہیں جو بیع کے ارکان یعنی ایجاب وقبول پردلالت کرتی ہو، لہٰذابیع تعاطی یا مستقل ایجاب وقبول کی بنیادپرمنعقد ہوگی۔ لہذاان کی حیثیت مبیع اوراس کےساتھ متعلقہ بعض مواصفات( یعنی خصوصیات)اور انتظامی شرائط پرمشتمل ایک تحریری وعدہ کی ہےجو عاقدین کےدر میان کسی اختلاف کی صورت میں ایک ثبوت کے طور پر فائدہ مند ہوگی، اور حاجت کی بناء پر فریقین پر اس وعدہ کی پابندی قضاء بھی لازم ہو گی۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ مبیع اگر خام مال (Raw Material) ہو جیسا کہ سوال میں فیکٹری کیلئے خام مال منگوانے کا ذکر ہے، نیز منسلکہ جی آر این بھی خام مال ہی سے متعلق ہے تو اس کی فقہی تکییف عقدِاستصناع کی بنیادپرنہیں ہوسکتی کیونکہ اس صورت میں صنعت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
(3)۔۔۔منسلکہ سامان وصولی کی رسید (GRN Goods Receiving Note) میں بھی ارکان ِبیع پر مشتمل کوئی بات درج نہیں ہے ، البتہ سوال کی تفصیل کے مطابق جی آر این (GRN) ، مال تیار ہو کر کمپنی کے پاس پہنچنے اوراسکی کوالٹی چیک کرنے کے بعد بنا کر دیا جاتا ہے۔
لہذا اگرچہ منسلکہ جی آراین (GRN) کی حیثیت ایجاب یا قبول کی تو نہیں ہے، اور بیع کا انعقاد بھی اس پرموقوف نہیں ہے کیونکہ بیع کمپنی کے پاس مال پہنچتے ہی تعاطی کے ذریعہ منعقد ہوتی ہے، تاہم مذکورہ تفصیل کےمطابق چونکہ یہ رسیدمال پر کمپنی کے قبضہ اور مطلوبہ صفات کے مطابق ہونے کے اطمینان کے بعد جاری کی جاتی ہے،اس لئے اس کی حیثیت قبضہ کے ثبوت کی ہے، اور یہ بھی کہ مال مطلوبہ صفات کے مطابق ہے۔
(4)۔۔۔ مذکورہ معاملہ اس وقت مکمل تصور کیا جائے گا جب کسی بھی ذریعہ سے معتبر شرعی طریقہ پر با قاعدہ بیع کاایجاب وقبول ہوجائے، یاتعاطی کی بنیادپربیع منعقد ہو جائے۔ اور سوال میں مذکورالفاظ ذمہ داری میں آنےکا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ، تاہم اگر اس سے ضمان میں آنا مراد ہے تو سامان آپ کے ضمان میں اس وقت آئےگا جب اس پرآپ کا کسی بھی نوعیت کا قبضہ ہو جائے جیسا کہ صورت مسئولہ میں ”تخلیہ" کی صورت میں قبضہ پایا جارہا ہے جس کی مزید تفصیل آگے سوال نمبر (5) کے جواب میں آرہی ہے۔
(5)۔۔۔مذکورہ صورتِ حال میں خریدار کمپنی کی طرف سے تاخیر کی وجہ سے ٹرک کے اضافی اخراجات خریدار کمپنی کے ذمہ لازم ہونگے ، اسی طرح بارش سے خراب ہونے کی وجہ سے ہونے والا نقصان بھی کمپنی کا ہی شمار ہو گا کیونکہ فون پر تمام معاملات طے کرنے کے بعد پر چیز آرڈر بھجوانے کے ذریعہ جس بیع کا وعدہ کیا گیا تھا، سپلائر نے جب طےشد ہ وقت پر وہ مال مشتری یعنی کمپنی کے پاس پہنچا دیا، اور اس کی طرف سے سامان خریدار کمپنی کے حوالے کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی تو یہ بائع کی طرف سے سامان کا تخلیہ “ ہے، لہٰذا تخلیہ کی بنیاد پر اس مال پر مشتری کاقبضہ بھی محقق جائیگا، اور تعاطی کی بنیاد پر مذکورہ بیع بھی منعقد ہو جائیگی، جس سے مال کمپنی کے ضمان اور ملکیت میں داخل ہو جائیگا، البتہ خریدارکمپنی کومطلوبہ صفات کےمطابق نہ ہونےکی صورت میںخیارِ عیب یاخیارِ شرط کی بنا پر سارا مال واپس کرنے کا اختیار ہو گااور چونکہ اس صورت میں مبیع، خریدار کمپنی کے قبضے (ضمان اور ملکیت) میں ہے، لہذانقصان کی ذمہ داری بھی کمپنی کی ہوگی۔
الدر المختار (5/277)
المواعيد قد تكون لازمة لحاجة الناس، وهو الصحيح كما في الكافي والخانية وأقره خسرو هنا والمصنف في باب الإكراه وابن الملك في باب الإقالة بزيادة.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (2/ 190)
والواقع في نظري أن اتفاقية التوريد لا يعدو من الناحية الشرعية من أن يكون تفاهما ومواعدة من الطرفين. أما البيع الفعلي فلا ينعقد إلا عند تسليم المبيعات.فالإشكال الوحيد إذن هو في جعل هذه المواعدة لازمة، وقد صدر قرار من مجمع الفقه الإسلامي في موضوع لزوم الوعد على هذا الأساس بأن الوعد إنمايجوز الإلزام به إذا كان من طرف واحد. أما إذا كان المواعدة من الطرفين،فإنها لا تلزم ولكن يوجد عند بعض الفقهاء القول بلزوم المواعدة عند الحاجة.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (2/ 192)
ولا شك أن الحاجة في إلزام المواعدة ظاهرة، ليس في عقود التوريد فقط، بل في كثير من أنواع التجارة المعاصرة، ولا سيما في التجارة الدولية.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (2/ 195)
والحاجة العامة في عقود التوريد واردة بلا شك ما قدمناه، فتحمل اتفاقيات التوريد مواعدة ملزمة على الطرفين بإنشاء عقد في المستقبل، ثم يتم العقد فيحينه على أساس الإيجاب والقبول، أو على أساس التعاطي والاستجرار، وهذاهو التكييف الفقهي السليم عندى لاتفاقيات التوريد، دون أن تجعلها عقوداباتة مضافة إلى تاريخ مستقبل، والله سبحانه وتعالى أعلم.ولكن لا تكون هذه المواعدة ملزمة للطرفين إلا إذا كانت الاتفاقية واضحةمحددة لقدر المبيع، ومواصفاته، ولمنه، أو على أساس معلوم محدد لتحديد الثمن بما ينفي الجهالة عن المبيع وثمنه كليهما. أما إذا كانت الاتفاقية فيها جهالة في مثل هذه الأمور، فلا تعد المواعدة ملزمة.
الدر المختار (9/479)
(والتخلية) بين الرهن والمرتهن (قبض) حكما على الظاهر (كالبيع) فإنها فيه أيضا قبض.
رد المختار(9/479)
(قوله والتحلية) هي رفع المواقع والتمكين من القبض (قوله قبض حكما ) لأنهاتسليم، فمن ضرورته الحكم بالقبض فقد ذكر الغاية التي يبين عليها الحكم لأنه هو المقصود. وبه الدفع قول الزيلعي الصواب أن التحلية تسليم لأنه عبارةعن رفع المانع من القبض، وهو فعل المسلم دون المتسلم والقبض فعل المتسلم اهـ أفاده في المنح والمراد أنه يترتب عليه ما يترتب على القبض الحقيقي (قوله على الظاهر) أي ظاهر الرواية وهو الأصح وعن أبي يوسف أنه لا يثبت في المنقول إلا بالنقل هداية ................... والله سبحانه وتعالى أعلم بالصواب