Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


کمپنی کاملازمین کو دی جانے والی سہولیات کو تنخواہ میں شمار کرنا


سوال

مختلف کمپنیوں میں جب نیا ملازم رکھا جاتا ہے تو تنخواہ کے علاوہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اسے اپنے عہدے کے اعتبار سے کمپنی کی طرف سے ماہانہ کتنے لیٹر پیٹرول ملے گا، پیٹرول کی یہ سہولت فیول کارڈ کی شکل میں ہوتی ہے ، اور ملازم منتخب کردہ کمپنی کے پیٹرول پمپ سے کارڈ کے ذریعےپیٹرول ڈلوا سکتا ہے۔ کمپنیوں کی طرف سے اپنے ملازمین کو جو یہ فیول کی سہولت دی جاتی ہے اس کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں، ہماری کمپنی میں جوفیول کی سہولت دی جاتی ہے وہ تنخواہ کا حصہ ہی شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ اس لئے جب ملازم کو آفرلیٹر دیا جاتا ہے تو اس میں ملازم کو پورا حساب کتاب لکھ کر دیا جاتا ہے اور اس میں تنخواہ کے علاوہ ملنے والی تمام سہولیات کی قیمت شامل کر کے ان کا مجموعہ ذکر کیا جاتا ہے اور اس میں پیٹرول کی مقدار بھی درج ہوتی ہے ۔

مثلاً:اس میں 200 لیٹر فیول کی سہولت کو بھی سیلری کا حصہ بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ علاوہ از یں ملازم رکھتے وقت یا اسے فیول کی سہولت دیتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا ہےکہ اس کا استعمال کتنا ہے بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کمپنی کی پالیسی کے مطابق وہ اپنے گریڈ کے اعتبار سے کتنی مقدار میں اس سہولت کا مستحق ہے، چنانچہ اگر کسی کا گھر کمپنی / دفتر سے بالکل ہی قریب ہو تو بھی اسےیہ آفر حاصل ہوتی ہے، اگر چہ اس کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہو۔ اور اگر کوئی بہت دور سے آتا ہو تو بھی اسے اپنے گریڈ یا عہدے کے اعتبار سےوہی طے شدہ مقدار میں پیٹرول کارڈ دیا جاتا ہے۔ اگر چہ اس کا استعمال اس مقدار سے زیادہ ہو۔ اس تمام تفصیل سے پتہ چلا کہ ہمارے یہاں یہ سہولت ملازم کا حق ہوتی ہے اور گویا کہ وہ اس کا مالک ہو جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ پالیسی جاری کرنے والا شعبہ خود اس بات کا اقرار کرتا ہےکہ ملازمین اس پیٹرول کے مالک ہیں جیسے چاہیں استعمال کریں۔ چنانچہ یہی وجہ تھی ہر ماہ جتنا پیٹرول استعمال ہونے سے بچ جاتا اس کی قیمت کے بقدررقم ، تنخواہ کے ساتھ ملازم کے اکاؤنٹ میں ڈال دی جاتی تھی۔ تاہم چونکہ بچ جانے والے پیٹرول کی واپسی کے طریق کار میں حساب کتاب کرنے کا ایک اضافی کام تھا، اس لئے ہمارے ہاں اب یہ پالیسی تبدیل کر دی گئی اور یہ کہا گیا کہ ملازم جتنا استعمال کر سکتا ہے کر لے، واپسی نہیں ملے گی۔ باقی ماندہ پیٹرول کی قیمت کی واپسی بند ہونے کی وجہ سے جن لوگوں کا پیٹرول بچ جاتا تھا، ان کیلئے مشکلات پیدا ہو نا شروع ہوئیں تو انہوں نے اس کے متبادل نکالنے شروع کر دیئے۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ تاہم اس سے پہلے فیول کارڈ سے متعلق مزید تفصیل ذکر کی جاتی ہے:

فیول کارڈ کی شکل میں ملنے والی سہولت کی تفصیل یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر ایک ملازم اپنے عہدے کے اعتبار سے 200 لیٹر پیٹرول کااہل ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اتنا پیٹرول وغیرہ ایک مہینے میں کمپنی کی طرف سے مفت استعمال کر سکتا ہے اور اس کی ادائیگی کمپنی کرے گی۔ اوراس کا طریق کار یہ ہو گا کہ ملازم کو جو کارڈ دیا جائے گا اس کے اعتبار سے وہ ہر ماہ کی یکم تاریخ سے مہینہ ختم ہونے تک پورے 200 یا اس کے اندراندر جتنے لیٹر پیٹرول ڈلوانا چاہے ڈلوا سکتا ہے، اور یہ پیٹرول چاہے وہ گاڑی میں ڈلوائے یا چاہے گھر کے جرنیٹر وغیرہ میں، یا چاہے کسی دوست وغیرہ کوبالعوض یا مفت ڈلوا کر دے، اس حوالے سے کمپنی کو کوئی غرض یا کمپنی کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں ہوتی۔

البتہ 200 لیٹر پورے ہونےکے بعد اس سے زیادہ ڈلوانا ممکن نہیں ہوتا۔ اب اگر کسی نے دس تاریخ تک ہی پورے 200 لیٹر پیٹرول ڈلوالیا تو اس کا حساب برابر ہو گیا، لیکن اگرکوئی ملازم مہینے میں فیول استعمال نہیں کر سکا اور پورے 200 لیٹر یا کچھ مقدار بچ گئی اور اسی اثناء میں نیا مہینہ شروع ہو گیا تو اب اس ماہ کی پیٹرول کی بچی ہوئی مقدار سوخت / ضائع((Lapseہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، کیونکہ بچ جانے والے پیٹرول کے بدلے میں اسے کسی قسم کی ادائیگی (Reimbursement)نہیں کی جائیگی جبکہ نئے ماہ سے نیا حساب بھی شروع ہو جائے گا۔

اب اس مسئلے کے حل کیلئے لوگوں نے کئی متبادل نکالے ہوئے ہیں، مثلاً ایک متبادل یہ کہ بچا ہوا پیٹرول کیش کروالیا جائے۔ پیٹرول کیش کروانے کا مطلب یہ ہے کہ پیٹرول پمپ والے کارڈ ہولڈر کسٹمرز کو یہ سہولت بھی دیتے ہیں کہ پیٹرول کی جتنی مقدار وہ چاہیں انہیں بیچ دیں اور اس کے بقدر ان سے رقم (کچھ روپوں کی کمی کے ساتھ ) حاصل کرلیں۔ اور اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ مثلاً کسی کے کارڈ میں 30 تاریخ کو دس لیٹرپیٹرول باقی رہ گیا۔ اس نے سوچا کہ اگر اسے استعمال میں نہ لایا گیا تو ضائع ہو جائے گا، چنانچہ اس نے دس لیٹر پیٹرول جو کہ 1000 روپے کا تھا، وہ اس نے 900 کا بیچ دیا۔ گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پیٹرول جو اسے عملی طور پر حاصل کرنے کا حق حاصل تھا وہ پمپ والوں کو کم قیمت پر بیچ کر ان سے اس کے بدلے میں رقم لے لی۔ اس سے کارڈ ہولڈر کو یہ فائدہ ہوا کہ اسے رقم مل گئی (اگر چہ 1000 کے پیٹرول کے استحقاق کے بدلے میں 900 روپے ملے، لیکن اس کے نزدیک کلی طور پر حق ضائع ہونے سے یہ صورت بہتر ہے ) اور پمپ والوں کو 100 روپے کا فائدہ ہوجاتا ہے کیونکہ وہ کمپنی سے پورے 1000 روپے وصول کریں گے جبکہ انہوں نے یہاں 900 روپے دیئے۔

یہاں مزید قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ جس طرح حقیقی طور پر پیٹرول ڈلوانے کی صورت میں شیل کی طرف سے کمپنی کو پیش کردہ بل (statement) میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ ملازم نے فلاں پمپ سے فلاں وقت اتنے لیٹر پیٹرول ڈلوایا، اسی طرح پیٹرول ڈلوانے کے بجائے پیٹرول کیش کروانے ( یا بالفاظ دیگر کٹوتی کے ساتھ پیسے لینے) کی صورت میں بھی کمپنی کو پیش کئے گئے بل میں یہی ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ گویا متعلقہ ملازم نے فلاں تاریخ کو 1000 روپے کا اتنے لیٹر پیٹرول ڈلوایا ہے اور اس میں یہ نہیں لکھا ہو تا کہ ملازم نے پیٹرول کیش کروایا ہے۔

اس میں اگر اس پہلو کو دیکھا جائے کہ یہ پمپ والوں کی طرف سے کارڈ جاری کرنے والی کمپنی کے ساتھ دھو کہ دہی ہے (یعنی کہ پیٹرول بیچا نہیں گیا بلکہ اس کی قیمت دی گئی ہے لیکن بل میں یہی ظاہر کیا گیا ہے کہ پیٹرول ڈلوایا گیا ہے) تو اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہئے، کہ یہ 200 لیٹرپیٹرول تو ایک عنوان ہے ورنہ گاڑی کے فیول سے متعلق جتنی چیزیں ہیں مثلاً :فلٹر، آئل ، سی این جی یا ڈیزل جو بھی ڈلوایا گیا، ان اشیاء کی قیمت کی جگہ بھی ان کی قیمت کی مقدار کے برابر پیٹرول کا حساب درج کیا جاتا ہے۔ جیسے اگر کسی نے 500 روپے کی سی این جی ڈلوائی تو کارڈ سے 500 کی قیمت کےحساب سے پیٹرول کی مقدار کاٹ لی جائے گی اور بعد میں سلپ میں بھی یہی درج ہو گا کہ 500 کا اتنے لیٹر پیٹرول ڈلوایا گیا۔ فیول کارڈ سے حاصل کردہ تمام سہولتیں ( فلٹر ڈلوانا، آئل ڈلوانا، سی این جی ڈلوانا یا کسی اور کو قیمتاً یا ہدیہ دینا، وغیرہ) حاصل کرنے پر ، سہولت دینے والی کمپنی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، کیونکہ انہیں بھی کارڈ میں موجود استعمال شدہ مقدار کے برابر رقم ملازم کی کمپنی کی طرف سے بلا حیل و حجت ادا کر دی جاتی ہے۔ اس لئے انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس کارڈ کا استعمال کس چیز کی خریداری کےلئے کیا گیا۔ اس تمام تر تفصیل کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب مرحمت فرمائیں۔

1. اس قسم کے حق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یعنی وہ حق جو ملازم کو دیا بھی جارہا ہو لیکن اسے پوری طرح سے، آزادانہ طور پر اس میں اختیار بھی حاصل نہ ہو ؟ صرف چند مخصوص صورتوں میں وہ اسے استعمال کر سکتا ہو۔ کیا اس لحاظ سے یہ پالیسی درست ہے اور جاری رکھی جاسکتی ہے؟

2. کمپنی ملازمین کا پمپ والوں کو اس طرح پیٹرول (یا اپنا حق) بیچ کر ان سے کم رقم لے لینا درست ہو گا یا نہیں؟ جبکہ وہ پیٹرول کے ابھی مالک نہیں بنےہوتے۔ کیا حقیقی قیمت کے حساب سے بیچنے اور کم قیمت پر بیچنے سے کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟

3. کمپنی سے ملنے والی فیول کی سہولت کی مذکورہ بالا تفصیل کے پیش نظر کیا کوئی شخص یہ کر سکتا ہے کہ کسی دوست کو 1000 روپے کا پیٹرول اپنے کارڈسے ڈلوا کے دے اور اس سے 1000 یا اس سے کم یعنی 900 روپے وصول کرلے؟

4. اسی طرح اگر کوئی شخص اس کارڈ سے گاڑی سے متعلق دیگر سہولیات حاصل کرتا ہے یا پھر جس آئل کمپنی کا کارڈ ہے، پمپ پر بنی ہوئی اس کمپنی کی دکان سے کوئی خریداری کرتا ہے تو کیا یہ درست ہو گا؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ کی کمپنی میں ملازم کو پیٹرول کی سہولت، تنخواہ کے طور پر دی جاتی ہے ، اور ہرماہ جتنا پیٹرول استعمال سے بچ جاتا ہے اس کی قیمت کے بقدررقم ملازم کے اکاؤنٹ میں ڈال دی جاتی تھی، تاہم نئی پالیسی کےمطابق بچی ہوئی مقدار کی قیمت واپس نہیں ملتی۔ اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملازم کو پیٹرول مالکانہ طور پر دینے کامطلب صرف یہ ہے کہ اس نے گاڑی میں جتنا پیٹرول ڈلوالیا ہے صرف وہ اسی کا مالک ہے، یعنی ملازم کی گاڑی میں موجودپیٹرول میں سے استعمال کے بعد جو بچ جائے اُس کا واپس کرنا ضروری نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کارڈ پر جتنے پیسےلکھے ہوئے ہیں وہ اس پورے پیٹرول کا مالک ہے، کیونکہ اگرایسا ہوتا تو بچی ہوئی مقدار کے پیسے ملازم کو واپس مل جاتے۔
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

(1)۔۔۔مذکورہ پالیسی باہمی رضامندی سے طے کرنا شرعاً درست ہے اور ملازم پیٹرول کی جتنی مقدار استعمال کرلے گاوہ اس کی تنخواہ کا حصہ ہو گا، اس صورت میں اگرچہ ملازم کی مجموعی تنخواہ میں جہالت ہوگی، لیکن اگر ملازم کی تنخواہ کچھ نہ کچھ متعین ہو اور تنخواہ کا باقی حصہ سہولیات کی شکل میں ہو جو ملازم کے استعمال سے کم و بیش ہوتی رہتی ہوں اور یہ معاملہ باہمی رضامندی سے ہو اور اس میں کوئی نزاع نہ ہو تو اس طرح تنخواہ طے کرنے کی گنجائش ہے۔

(3،2)۔۔۔ مذکورہ دونوں صورتیں شرعاً درست نہیں، کیونکہ ملازم اس پیٹرول کا مالک ہی نہیں ہے کہ وہ اسے کسی قیمت پر فروخت کر سکے۔

(4)۔۔۔ اگر ملازم کی کمپنی کے ضابطہ میں پیٹرول کارڈ سے صرف پیٹرول ڈلوانے کے بجائے گاڑی کی متعلقہ دیگر اشیاء بھی خریدنے کی اجازت ہو تو یہ صورت جائز ہے، ورنہ نہیں۔

حاشية ابن عابدين - (47/6)
(قوله و كشرط طعام عبد و علف دابة )في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المستأجر ذكر في الكتاب أنه لا يجوز. وقال الفقيه أبو الليث : في الدابة نأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يا كل من مال المستأجر عادة اه.

قال الحموي: أي فيصح اشتراطه واعترضه ط بقوله فرق بين الأكل من مال المستأجر بلاشرط ومنه بشرط اھ. أقول: المعروف كالمشروط وبه يشعر كلام الفقيه كما لا يخفى على النبيه، ثم ظاهر كلام الفقيه أنه لو تعورف في الدابة ذلك يجوز تأمل.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2157/10 المصباح : SF:044
20 2