Phone: (021) 34815467   |   Email: info@almisbah.org.pk

فتاویٰ


خریدے ہوئے سامان میں عیب نکلنے کی صورت میں قیمت واپس ملنے کے بعد سامان کا حکم


سوال

ہماری ایک پروڈکٹ جس کی پیکنگ شیشے کے جار میں ہوتی ہے، اس کے لئے ہم نے تقریباً دو سال قبل بیرون ملک میں واقع ایک کمپنی سے چار ہزار ڈالر (اس وقت کی قیمت کے حساب سے 3 لاکھ پاکستانی روپے) کے ڈھکن (Caps) آرڈر پر بنوائے، ہم نے ڈھکن تیار کرنے والی کمپنی کومطلوبہ ڈھکنوں (Caps) کے تمام (Specifications) اوصاف بتا دیئے تھے، اور چونکہ ہمارے یہاں وہ ڈھکن بوتلوں کے اوپر ہاتھ سے لگائےجانے تھے ، اس لئے ہم نے انہیں یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ یہ (Caps) ایسے ہونے چاہئیں جو ہاتھ کی پیکنگ یعنی (Manual) طریقے پر کارآمد ہوں اور صحیح طریقے سے فٹ آجائیں۔

جب انہوں نے وہ ڈھکن تیار کر کے ہمیں بھیجے تو ہم نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن وہ ڈھکن ہاتھوں سے ٹھیک طریقے سے بوتلوں پرفٹ نہیں ہو رہے تھے۔ ان میں عیب یہ تھا کہ یہ Vacuum Packing (ایسی پیکنگ جس میں ہوا کا گزر رک جائے) نہیں بنارہے تھے ، یعنی اگر ہاتھ سے فٹ کئے جاتے تو بوتل میں ہوا کے گزرنے کا امکان باقی رہتا، جس سے پروڈکٹ کا خراب ہو نا یقینی ہو تا ہے۔ چنانچہ ہم نے سپلائر کمپنی سے رابطہ کیااور انہیں یہ عیب بتا کر مال کی واپسی کا تقاضا کیا، اس مرحلے میں عیب سے متعلق Sample وغیرہ کے ذریعے تمام شواہد بھی پیش کئے گئے ، اور جب مذکورہ کمپنی نے اپنے مال میں پائے جانے والے عیب سے متعلق تسلی کرلی تو انہوں نے اپنے مال میں موجودہ عیب کو تسلیم کر لیا کہ ان کا مال طے شدہ اوصاف(Specifications) کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہماری طرف سے ادا کردہ رقم بھی مکمل طور پر ہمیں واپس کر دی، ہمیں چونکہ رقم اداواپس مل گئی تھی اس لئے ہم نے ان سے کہا کہ آپ اپنا مال واپس منگوالیں، مال کی واپسی کی صورت میں چونکہ ان کے (شپمنٹ وغیرہ کے ) اخراجات لگنےتھے ، لہذا انہوں ہمیں کہا کہ آپ جس طرح چاہیں اپنے طور پر اس مال کو ضائع (Dispose) کر دیں کیونکہ مال واپس منگوانے کی صورت میں ان کےاخراجات زیادہ پڑ رہے تھے جو ان کے لئے نقصان کا باعث تھا۔

(واضح رہے کہ اگر وہ مال واپس بھیجنے کا کہتے تو ہم ان ڈھکنوں کو توڑ کر واپس کرتے (تاکہ ہماری کمیٹی کا نام (Logo) جو ان پر چھپا ہوا ہے وہ غلط استعمال نہ ہو جائے) اور اس صورت میں انہیں صرف ان ڈھکنوں کے خام مال کا فائدہ حاصل ہوتا،لیکن انہوں نے اس کو اختیار نہیں کیا نیز جب انہوں نے ہمیں ضائع کرنے کا اختیار دیا تو یہ بات انہیں بھی ظاہری طور پر معلوم (Understood) تھی کہ ان ڈھکنوں کو توڑا جائے گا اور بعد ازاں یہ اسکریپ مال کے طور پر فروخت بھی ہو سکیں گے، کیونکہ یہ ڈھکن دھات (Motal) سے بنے ہوتے ہیں،جو اسکریپ مال کے طور پر بک سکتی ہے، لیکن پھر بھی انہوں نے ہم سے کسی قسم کا کوئی تقاضہ نہیں کیا۔)

جس وقت ان کی طرف سے ان ڈھکنوں کو ضائع کرنے کی اجازت مل گئی تھی تو اس وقت ہمارے ہاں لیبر کی مصروفیت کے دن تھے ، اس لئے ہم نےاس مال کو ضائع نہیں کیا اور سوچا بعد میں کسی وقت ضائع کر دیں گے نیز سپلائر کی طرف سے بھی جلدی کی کوئی پابندی نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے کوئی پروف مانگا تھا کہ ضائع کر کے ہمیں اطلاع دیں یا تصویر بنا کے بھیج دیں، کیونکہ ضائع کرنے نہ کرنے میں ان کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں تھا۔ یہ (Caps)ہمارے یہاں ویسے ہی اسٹور میں پڑے رہے اور یہ ڈھکن استعمال کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھا، یہ ہر صورت میں ضائع ہی کرنے تھے۔ لیکن اب ہم نے آٹو میٹک مشینیں لی ہیں، اور جب ہم نے مشینی پیکنگ میں مندرجہ بالا (Caps) استعمال کر کے چیک کئے تو یہ کارآمد ثابت ہوئے اور پوری طرح فٹ بیٹھ رہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر دریافت طلب بات یہ ہے کہ :

• یہ (Caps) جن کے ضائع کرنے کا ہمیں کمپنی نے اختیار دیا تھا، لیکن ہم نے لیبر مصروف ہونے کی وجہ سے ضائع نہیں کئے تو کیا اب ہم یہ ڈھکن اپنی پروڈکٹ کیلئے استعمال کر سکتے ہیں؟
• اگر ہم ان (Caps) کو اپنے پروڈکٹ میں استعمال کرتے ہیں تو اس کے لئے سپلائر کمپنی کو بتانا یا ان سے اجازت لینا ضروری ہے ؟
• کیا اس میں سپلائر کمپنی سے کوئی نیا معاہدہ کرنا یا قیمت ادا کرنا ضروری ہوگی؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق جب سپلائر کمپنی نے عیب تسلیم کر کے آپ کو پیسے واپس کر دیئے توشرعی لحاظ سے سودا ختم ہو گیا،سودا ختم ہونے کے بعد یہ تیار کر دہ مال دوبارہ سپلائر کمپنی کی ملکیت ہو گیا، جو فی الحال آپ کے پاس امانت ہے، اور محض ضائع کرنے کا اختیار دینے کی وجہ سے اُن کی ملکیت سے نہیں نکلا۔ لہذا اب اس مال کےاستعمال کرنے اور نہ کرنے کے متعلق سپلائر کمپنی کی صراحتاً یا دلالتاً اجازت ضروری ہے۔ اور صورتِ مسئولہ میں صراحتاً اجازت نہ ہونا تو واضح ہے، کیونکہ سپلائر کمپنی نے آپ کو استعمال کرنے یا فروخت کرنے کی صریح اجازت نہیں دی تھی، بلکہ اس تقدیر پر ضائع کرنے کا کہا تھا کہ یہ مال آپ کے کام کا نہیں ہے، نیز واپس منگوانے میں اخراجات زیادہ ہیں، لیکن چونکہ آپ نے اُن کے کہنے کے مطابق ضائع نہیں کیا اس لئے یہ مال بدستور انہی کی ملکیت رہا۔ اور دلالتاً اجازت کا ہونابظاہر اس لئے مشکل ہے کہ اگر سپلائر کمپنی کو یہ معلوم ہو جائے کہ آپ نے یہ ڈھکن اُس وقت ضائع نہیں کئے تھے، اور تقریباً تین لاکھ روپے کی مالیت کے یہ ڈھکن اب آپ کےلیے قابلِ استعمال ہیں تو غالب گمان یہی ہے
کہ وہ آپ کے مفت استعمال پر راضی نہیں ہو گی۔

خلاصہ یہ کہ اگر آپ استعمال کرنا چاہتے ہیں تو سپلائر کمپنی کے علم میں لا کر اُن کی اجازت سے استعمال کر سکتےہیں۔ اگر وہ قیمت کا مطالبہ نہ کرے تو قیمت دینا لازم نہیں، اور اگر قیمت طلب کرے تو پھر نیا معاہدہ کرنا ہو گا، اور فقہی لحاظ سے یہ عقدِ جدید ( نیا سودا) ہو گا، جس میں قیمت کا سابقہ سودے کے مطابق ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ باہمی رضامندی سے کسی بھی قیمت پر اتفاق کیا جاسکتا ہے، بلکہ اگر کسی ایسی قیمت پر اتفاق کر لیا جائے جس میں فریقین کی رعایت ہو تو بہتر ہے۔

الدر المختار - (126/5)
(و) الرابع (جاز للبائع بيع المبيع منه ) ثانيا بعدها (قبل قبضه) ولو كان بيعا في حقهم البطل كبيعه من غير المشتري عيني.

حاشية ابن عابدين - (126/5)
(قوله : والرابع) صورته باع زيد من عمر و شيئا منقولا كثوب و قبضه ثم تقايلاثم باعه زيد ثانيا من عمر وقبل قبضه منه جاز البيع؛ لأن الإقالة فسخ في حقهما،فقد عاد إلى البائع ملكه السابق فلم يكن بائعا ما شراه قبل قبضه.

الفتاوى الهندية - (158/3)
قوم في السفينة وقد اشترى قوم من رجل منهم في السفينة أمتعة فخيف الغرق ووقع الاتفاق على إلقاء بعض الأمتعة على السفينة حتى تخـف السفينة فقال بائع الأمتعة من طرح منكم المتاع الذي اشترى مني فقد أقلته البيع فطر حواصحت الإقالة استحسانا كذا في الخلاصة.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام )98/1(
(المادة ٩): لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي هذه القاعدةمأخوذة من المجامع وقد ورد في الحديث الشريف « لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده» فإذا أخذ أحد مال الآخر بدون قصدالسرقة هاز لا معه أو مختبرا مبلغ غضبه فيكون قدار تكب الفعل المحرم شرعالأن اللعب في السرقة جد فعلى ذلك يجب أن ترد اللقطة التي تؤخذ بقصدامتلاكها أو المال الذي يؤخذر شوة أو سرقة أو غصبا لصاحبها عينا إذا كانت موجودة وبدلا فيما إذا استهلكت(راجع المادتين (899 و 891).
كذالوادعي إنسان على آخر بحق وبعد أن تصالحاظهر بأن ليس للمدعي حق بما ادعى فيحق للمدعى عليه استرداد بدل الصلح منه.كما لو صالح البائع المشتري على عيب ادعاه في المبيع بعد أن أنكره هو فتبين لـه بعد ذلك أن المبيع خال من العيب أو كان فيه فزال بنفسه فللبائع حق استرداد
بدل الصلح من المشتري.وهكذا إذا دفع إنسان شيئا إلى آخر غير واجب عليه أداؤه فله استر داده مالم يكن أعطاه إياه على سبيل الهبة ووجد ما يمنع من ردها. فإذا دفع إنسان رشوةلقاض فندم على إعطائه إياها فله حق استردادها.


دارالافتاء : جامعہ دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر : 2189/58 المصباح : SF:045