ایک شخص نے اپنی رہائشی جائیداد کو اپنے نام پر انتقال کیلئے ایجنٹ سے بات کی اس نے بتایا کہ دو سے تین ماہ کاعرصہ لگےگا ، اور اندازاً دو سے اڑھائی لاکھ تک خرچہ آئے گا۔ چنانچہ اس نے ایجنٹ سے ڈھائی لاکھ روپے میں معاملہ طے کر لیااور ایجنٹ کو ایک لاکھ روپے ایڈوانس دے دیئے ، ابھی اس معاملے کو ایک سے ڈیڑھ ماہ گزرا تھا اور تقریباً آدھا کام ہو چکاہو گا، کہ بیچ میں اس کی زکوۃ کی تاریخ آگئی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ایک لاکھ روپے جو وہ دے چکا ہے، یہ اجرت شمار ہو گی یا قابل زکوۃ اثاثوں میں شامل ہو گی؟ اور اسی طرح جو ڈیڑھ لاکھ مزید دینے ہیں، کیا وہ منہا کیا جا سکتے ہیں یا نہیں؟
(1)۔۔۔صورت مسئولہ میں شخص نے کور مارکیٹ سے ڈھائی لاکھ روپے میں معاملہ طے کرنے کے بعد جو ایک لاکھ روپے ادائیگی وہ کر چکا ہے، وہ اس کی ملکیت سے نکل گئے ہیں، لہذا شخص مذکور پر اس ایک لاکھ روپے کی زکوۃ لازم نہیں۔البتہ کام چونکہ مکمل نہیں ہوا ہے اس لئے شرعی لحاظ سے بقیہ رقم شخص مذکور کے ذمہ واجب الاداء نہیں ہوئی، لہٰذاوہ قابلِ زکوٰ ۃ اَموال سے منہا نہیں ہو گی۔
واضح رہے کہ مذکورہ صورت میں پیشگی وصول کردہ اجرت ایجنٹ کی ملکیت ہے، لہٰذازکوۃ کا سال پورا ہونے پرزکوۃ کے شرعی اصولوں کے مطابق ایجنٹ پر اس قسم کی زکوۃ لازم ہو گی۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام - (2/ 165)
وأما زكاة الأجرة المعجلة عن سنين في الإجارة الطويلة التي يفعلها بعض الناس عقودا ويشترطون الخيار ثلاثة أيام في رأس كل شهر فتجب على الآجر لأنه ملكها بالقبض وعند الانفساخ لا يجب عليه رد عين المقبوض بل قدره فكان كدين لحقه بعد الحول. وقال الشيخ الإمام الزاهد علي بن محمد البزدوي ومجد الأئمة السرخكتي: يجب على المستأجر أيضا لأن الناس يعدون مال هذه الإجارة دينا على الآجر، وفي بيع الوفاء يجب زكاة الثمن على البائع، وعلى قول الزاهد والسرخكتي يجب على المشتري أيضا، وصرح السيد أبو شجاع بعدم الوجوب على المستأجر.وفي الخلاصة قال: الاحتياط أن يزكي كل منهما.وفي فتاوى قاضي خان استشكل قول السرخكتي بأنه لو اعتبر دينا عند الناس وهو اعتبار معتبر شرعا ينبغي أن لا تجب. على الآجر والبائع لأنه مشغول بالدين، ولا على المستأجر والمشتري أيضا لأنه وإن اعتبر دينا لهما فليس بمنتفع به لأنه لا يمكنه المطالبة قبل الفسخ ولا يملكه حقيقة فكان بمنزلة الدين على الجاحد، وثم لا يجب ما لم يحل الحول بعد القبض انتهى: يعني فيكون في معنى الضمار.